بچوں پر تشدد کے بڑھتے رجحان کو روکنے کی ضرورت!
(محمد ارشد شیخ بیوروچیف)
ہمارے ہاں بچوں پر جنسی تشدد کے قبیح جرم میں اضافے کا رجحان ہے جس کی شرح گزرتے وقت کیساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے، بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک غیر سیاسی تنظیم کی طرف سے بچوں پر جنسی تشدد کی جاری کردہ رپورٹ میں رونگٹے کھڑے کردینے والے انکشافات کئے گئے ہیں اور یہ واقعات کسی مخصوص علاقے، مخصوص شعبے یا مخصوص لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ جامعات، ہسپتالوں، ہوٹلز، ورکشاپوں، کلینکس، کالجز، فیکٹریز، جیل، پولیس اسٹیشنز،شادی ہالز حتیٰ کہ قبرستانوں تک میں یہ شیطانی فعل کوسرزد کیا گیا، ”رپورٹ“میں بتایا گیا ہے کہ 2019 تک کل6102بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو گزشتہ سال کی شرح سے کہیں بڑھ کر ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں جنسی تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے جن میں کم عمری کی شادیوں کے 141واقعات جبکہ 19واقعات میں کم عمر بچیوں کو ونی کیا گیا، 41بچے بچیوں کو جامعات میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 3508ہے، اگر ضلع شیخوپورہ کی بات کی جائے تو شیخوپورہ میں جنسی تشد د کا نشانہ بننے والے بچوں کی تعداد355ہے، رپورٹ میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ بچوں کو جنسی تشد سے بچاؤ کیلئے آگاہی مہم موثر حکمت عملی کے تحت چلائی جائے حکومت بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے چائلڈ پروٹیکشن بل فوری طور پر پاس کرے، جنسی تشدد سے متاثرہ بچوں کی بحالی کیلئے موثر سپورٹ سسٹم قائم کیے جائیں،بچوں کی حفاظت پر مبنی پیغامات کو بچوں کے نصاب کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے، وفاقی کابینہ کے منظور کردہ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق بچوں کا بے جا استعمال اور احتصال فوری بند کیا جائے اور متعلقہ ادارے اس پرعمل درآمد یقینی بنائیں، مذکورہ رپورٹ میں بیان کردہ انکشافات بلاشبہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر پر سوالیہ نشان ہیں تو دوسری طرف اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنسی تشدد کی روک تھام کے سلسلہ میں موثر میکنزم موجود نہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کیلئے آگاہی مہم موثرچلانے اور نئے قوانین بنانے سمت نافذ شدہ قوانین میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے جبکہ متاثرہ بچوں کی بحالی کیلئے موثر سپورٹ سسٹم کا قیام ناگزیر ہے تاکہ بچوں کے تحفظ کے سلسلہ میں باقائدہ نصابی کتب میں اس مسئلہ کو اجاگر کیا جائے اور وفاقی کابینہ کا منظور کردہ بچوں پر جنسی تشدد کے متعلق نیشنل ایکشن پلان کے جزویات پر عملدر آمد یقینی بنایا جائے تاکہ بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے،مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جہاں ہم بطور معاشرہ اور بہت سی خرافات کا شکار اور جرائم میں گھرے ہوئے ہیں وہاں بچوں پر جنسی تشدد کا معاملہ بھی بری طرح گلے پڑا ہوا ہے حالانکہ یہ معاشرتی برائی بھی ہے اور اسلام بھی اسے کبیرہ قرار دیتا ہے جبکہ ملکی قوانین میں اس کی سخت سزائیں بھی موجود ہیں مگر اس کے باوجود بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی شرح میں ہرسال اضافہ پایا جانا یقینا لمحہ فکریہ ہے، واضح رہے کہ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنیوالی تنظیم نے 1996میں یہ ڈیٹا مرتب کرنے کا کام شروع کیا اور ہر سال اپنی رپورٹ شائع کرنے سمیت میڈیا ہاؤسز اور اخبارات کے دفاتر کوپہنچاتی ہے اور یہ رپورٹ اخبارات و جرائد اور پرنٹ میڈیا کے توسط سے حکومتی شخصیات، ارباب اختیار اور متعلقہ اداروں سمیت عام عوام تک بھی پہنچتی ہے مگر لگتا ہے اسے کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا یہی وجہ ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی موثر حکمت عملی ابھی تک سامنے نہیں آئی، اکا دکا واقعات کو وقتی طور پر اٹھایا جاتا ہے اور پھر کچھ دیر کے شور وغل کے بعد تمام چیزیں منظر نامے سے اوجھل ہوتی چلی جاتی ہیں، کہنے کو قوانین بھی موجود ہیں مگر عملدرا ٓمد کا فقدان پایا جاتا ہے، جس معاشرے میں بچے گھروں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور مساجد و جامعات تک میں محفوظ نہیں وہ معاشرہ کن اقدار و احیاء کی بات کرنے کا اہل ہے، صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں میں تقریباً ہر عمر و نسل اور طبقے و علاقے کے لوگ شامل ہیں جو اجتماعی معاشرتی تباہی کا کھلا اظہار ہے، لہذاٰ مذکورہ صورتحال تعجب اور تشویش کے اظہار سے کہیں بڑھ کر خوفناک ہے جس کے تدارک کیلئے فقط حکومت سے مطالبات اور اقدامات کی اپیلوں تک محدود رکھی نہیں جاسکتی، احوال حاضر کا تقاضا ہے کہ ہم بچوں کو جنسی تشدد کے حوالے سے آگاہ کرنے سمیت ایسے عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو اس جرم میں ملوث پایا جائے معافی تلافی یا بدنامی کے ڈر سے منہ بند رکھنا مسئلے کا حل نہیں جبکہ بطور معاشرہ ہمیں اپنا اجتماعی کردار ادا کرتے جنسی تشدد کی روک تھام کیلئے کام کرنیوالے سماجی اداروں اور این جی اوز کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ موثر اور بھرپور آواز اٹھائی جاسکے اور اس سلسلہ میں مجموعی موقف کھل کر سامنے آسکے، ہونا تو یہ بھی چاہئے کہ پنجاب حکومت دیگر حکومتی منصوبوں کی طر ح اس اہم ایشو پر بھی توجہ دے کیونکہ پنجاب پاکستان میں بچوں سے جنسی غیر اخلاقی کے واقعات میں پہلے نمبر ہے اور بلاشبہ بچوں سے جنسی غیر اخلاقی پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے عالمی سطح پر بھی ملکی امیج خراب ہو رہا ہے اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ بچوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور چونکہ جنسی غیر اخلاقی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے عالمی سطح پر ہمارا چہرہ مسخ ہو رہا ہے اس کے باوجود اس سلسلہ میں موثر اقدامات کا فقدان دکھائی دے رہا ہے اور دیکھا جائے تو بچوں سے جنسی غیر اخلاقی کے واقعات میں اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جو بچے گھروں بھاگ جاتے ہیں وہ ایسے گروہوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو بچوں کو مسلسل غیر اخلاقی کانشانہ بنتے ہیں اور اس تناظر میں ارباب اختیار کا فوکس ان گروہوں پر بھی ہونا چاہئے جو بچوں کو بھیک مانگنے اور جنسی غیر اخلاقی پر مجبورکرتے ہیں۔