ملاوٹ مافیا کی کارروائیوں کے آگے بند کون باندھے گا؟
تحریر: مرزا نعیم الرحمان
۔۔۔۔۔
ملک معاشی بحران کا شکار اور مہنگائی کا اژدھا غریب طبقے کو نگلتا جا رہا ہے ایسے حالات میں ملاوٹ خور مافیا بھاری بھر کم منافع حاصل کرنے کے باوجود عوام کی رگوں میں زہر اتارنے میں مشغول ہے‘ محکمہ صحت اور فوڈ اتھارٹی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں بری طرح بے بس نظر آتے ہیں گوشت‘ سبزیوں‘ اشیائے خوردونوش‘ مصالحہ جات حتی کہ پھل فروٹ میں بھی ملاوٹ خوری کا زہر بری طرح پھیل چکا ہے بدترین مہنگائی میں خون پسینے کی کمائی سے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کیلئے کمائی گئی دولت کو ملاوٹ خور مافیا دونوں ہاتھوں سے ہتھیانے میں مشغول ہے‘ ملاوٹ خوری سے ہیپاٹائٹس‘ کالا یرقان‘ اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے دودھ کے نام پر شیر خوار بچوں کو زہریلا کیمیکل پلایا جا رہا ہے جس کے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں انتظامیہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود کیمیکل ٹرموں میں دودھ کی نقل و حمل‘ کیمیکل سے تیار کیے گئے جعلی اور پانی ملے دودھ کی فروخت نہیں روکی جا سکی مہنگائی کے دور میں غریب طبقہ گوشت جیسی نعمت سے محروم تھا ہی مگر اب سبزیوں‘ اور اشیائے خوردونوش کی آسمان چھوتی قیمتیں کے باعث یہ اشیائے بھی اسکی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں بدترین معاشی حالات میں اہل خانہ کیلئے پھل فروٹ‘ گوشت‘ سبزیاں‘ دودھ خریدنے والوں کو پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود ملاوٹ شدہ اشیاء فروخت کی جارہی ہیں تو یہ سراسر متعلقہ محکموں کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی کا نتیجہ ہے ملاوٹ خور مافیا دودھ کے نام پر شہریوں میں زہر بانٹ رہا ہے جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں پانی اور کیمیکل ملے دودھ کے بعد مصنوعی دودھ نوجوان نسل کی ہڈیاں کھوکھلی کرنے کا سبب بن رہا ہے سبزی‘ گوشت‘ دالیں‘ کوکنگ آئل‘ فروٹ اور دودھ دہی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے باوجود اوپن مارکیٹ میں معیاری اشیاء کی تلاش اندھیرے میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے غیر اعلانیہ طور پر قیمتوں میں اضافہ کر کے شہریوں کی جیبیں صاف کی جا رہی ہیں ضلعی انتظامیہ‘ محکمہ صحت اور فوڈ اتھارٹی ملاوٹ خور مافیا کا محاسبہ کرنے میں بری طرح ناکام دیکھائی دیتی ہے فوڈ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی طر ف سے ملاوٹ خوروں کیخلاف بارہا مہم چلائی گئی متعدد کو جرمانے ہوئے تو بعض کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی مگر مستقل بنیادوں پر اقدامات نہ ہونے کے باعث ملاوٹ خور مافیا پھر سے متحرک ہو جاتا ہے رنگ شدہ سبزیاں اورفروٹ‘ بالائی اتار کر کیمیکل سے گاڑھا کیا گیا دودھ‘ جعلی طریقوں سے تیار کیا جانیوالا دودھ‘ مردہ مرغیوں کے گوشت کی فروخت‘پانی ملے چھوٹے اور بڑے گوشت کی فروخت جیسے مکروہ فعل کرنیوالے انتظامیہ اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے مکروہ دھندے کو جاری رکھے ہوئے ہیں ہوس زر کی لالچ نے انہیں اس قدر اندھا کر رکھا ہے کہ انہیں اس امر کی قطعا کوئی پروا نہیں کہ ملاوٹ خوری سے عوام بیماریوں کا شکار ہونگے یا پھر انکی جان بھی جا سکتی ہے قبل از وقت کھیتوں میں کیمیکل والی سبزیاں اور جانوروں کو ٹیکہ لگا کر دودھ حاصل کرنے کے علاوہ ولایتی مرغیوں کا دھڑا دھڑ استعمال نوجوانوں کی صحت برباد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے ہر دوسرا بچہ مضر صحت اور جعلی دودھ کے استعمال کے باعث بیماریوں میں جکڑا دکھائی دیتا ہے چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے کلینک اور ہسپتالوں میں بچوں کی وارڈ سے رش ختم ہونے کا نام نہیں لیتا یہ سب کارستانی ملاوٹ خور مافیا کی ہیں سبزیوں اور فروٹ منڈیوں میں اشیائے کو جیسے پر لگ گئے ہوں‘ سیب‘ جاپانی پھل‘ انگور‘ کی قیمتیں غریب طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں موجودہ حالات میں غریب آدمی تو مہنگے فروٹ کا تصور بھی نہیں کر سکتا اب سفید پوش طبقہ بھی سنگین مسائل کا شکار ہو چکا ہے پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور ضلعی انتظامیہ کو صور تحال کا تدارک کرنے کیلئے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی‘ بیشتر ہوٹلوں میں غیر معیاری اشیاء کے استعمال سے سنگین بیماریاں جنم لے رہی ہیں مزدور دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہوٹلوں سے کھانا کھانے پر مجبور ہیں ہوٹل مالکان کی اکثریت کھانوں کی تیار ی کیلئے غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ گھی‘ آئل اور دیگر اشیاء استعمال کرتے ہیں جو انسانی صحت کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہیں مٹھائی کی دوکانوں‘ دودھ دہی شاپس‘ اور قصابوں کی اکثریت بھی شہریوں کو ملاوٹ شدہ چیزیں فروخت کرتی ہے‘اکثریتی ہوٹلو ں پر جانوروں کی چربی سے تیار کیا جانیوالے گھی کے پراٹھے اور ڈشز تیار کی جاتی ہیں محکمہ فوڈ اتھارٹی کی اکا دکا کاروائیوں سے ملاوٹ خور مافیا اپنا قبلہ درست نہیں کریگا معمولی جرمانے ادا کرنے کے بعد ملاوٹ خور دوبارہ شہریوں کی صحت سے کھلواڑ شروع کر دیتے ہیں ایسے ملاوٹ خوروں کے کاروبار کو مستقل بنیادوں پر بند کر کے انہیں دوسروں کیلئے نشان عبرت بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے ضرورت اس امر کی حکومت پنجاب ملاوٹ خوروں کیخلاف سخت ترین قوانین بنائے جن کے ذریعے انسانی صحت اور پیسہ برباد کرنیوالوں کو پابند سلاسل کیا جائے تاکہ وہ معاشرے کی تباہی کا سبب نہ بنیں۔