ٹرین حادثات کیسے روکے جائیں؟
یونس باٹھ
لیاقت پور رحیم یارخان کے قریب مسافر ٹرین تیزگام کو دل ہلا دینے والا المناک حادثہ پیش آیا جس میں اطلاعات کے مطابق 85 مسافر جان بحق ہوئے جبکہ 43 زخمی ہوگئے ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ حادثہ گاڑی کے ایک ڈبے میں اس وقت پیش آیا جب کچھ مسافر گیس سلنڈر استعمال کرکے ناشتہ تیار کر رہے تھے۔ حادثاتی طور پر گیس سلنڈر پھٹ گیا جس سے آگ بھڑک اْٹھی اور آگ کے شعلوں نے تین مسافر بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جبکہ ایک مسافر نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حادثہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہوا اور کسی بوگی میں آگ بجھانے کیلئے کوئی انتظام نہیں تھا۔ حالیہ ریلوے کے حادثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ریلوے کے اعلیٰ افسران نے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے روبرو یہ تسلیم کیا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ریلوے کے چھوٹے بڑے 74 حادثات ہوئے ہیں۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ریلوے کا وزیر رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیتا یا وزیراعظم اس کو برطرف کر دیتا مگر پاکستان بدقسمتی سے چونکہ ہر لحاظ سے ایک پسماندہ ملک ہے لہٰذا ہم اس سلسلے میں خوشگوار روایات قائم نہیں کرسکے بلکہ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاکستان ریلوے عروج سے زوال کی جانب سفر کرتا نظر آتا ہے۔ بھٹو حکومت کے دوران وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی نے ایک جلسہ عام میں ریلوے کے وفاقی وزیر خورشید حسن میر پر یہ الزام عائد کردیا کہ ان کا ہاضمہ اتنا تیز ہے کہ وہ تو ریلوے کے انجن بھی ہضم کر جاتے ہیں۔ خورشید حسن میر انتہائی قابل احترام اور دیانتدار سیاستدان تھے۔ انہوں نے اس بات کو برداشت نہ کیا اور وزارت اور پارٹی کے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ مولانا کے بیان کی انکوائری کرائیں تاکہ سچ سامنے آ سکے۔ افسوس بھٹو صاحب نے اس واقعی کی انکوائری نہ کرائی۔وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بالآخر سانحہ تیز گام ایکسپریس کے حوالے سے دبے لفظوں میں ہی سہی یہ تسلیم کیا کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں میں ریلوے کا وہ عملہ بھی شامل ہے جس نے مسافر ٹرینوں کے لئے موجود قواعد و ضوابط پر عمل کرانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ ریلوے میں ترقی کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود یہ امر ریکارڈ پر ہے کہ جمعرات کے سانحہ کے علاوہ پچھلے ایک سال کے دوران آٹھ بار مسافر کوچوں میں آتشزدگی کے واقعات ہوئے جبکہ اسی عرصہ میں ٹرینوں کے چھوٹے بڑے 100حادثات بھی۔ یہ اعداد و شمار وفاقی وزیر ریلوے کے دعوؤں کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمعرات کو وفاقی وزیر ریلوے نے سانحہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے لئے 15لاکھ روپے فی کس اور زخمیوں کے لئے 5لاکھ روپے فی کس امداد کا اعلان کیا دن بھر داد سمیٹنے کے بعد شام کے اوقات میں انہوں نے کہا کہ مسافروں کو انشورنس کی رقم ملے گی۔ یہاں قانونی نکتہ یہ ہے کہ انشورنس کی رقم کا اعلان وفاقی وزیر کرسکتے تھے؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ریلوے کی ایک متاثرہ بوگی ایک شخص کے نام بک تھی کیا انشورنس کے قواعد ادائیگی کے آڑے نہیں آئیں گے۔ایک المناک سانحہ پر بھی شخصی شہرت کے حصول کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے والے وزیر ریلوے آخر اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرکے مستعفی کیوں نہیں ہوجاتے' انہیں بلند و بانگ دعوؤں اور روزانہ کی بنیاد پر علاقائی سیاسی اور عالمی امور پر پریس کانفرنسوں سے وقت ملے تو ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور ضرور کریں کہ ماضی کی طرح اس بار بھی انہوں نے ریلوے کے ادارے کو عملی طور پر برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ شیخ رشید کو سمجھنا ہوگا کہ ادارے پریس کانفرنسوں اور بیانات سے نہیں چلتے محنت' حکمت عملی اور اہداف کے حصول کی لگن ہی اداروں کو کامیاب بناتی ہے۔ جمعرات کے المناک سانحہ کے بعد ملک بھر کے سیاسی و سماجی حلقے اگر ان کی برطرفی یا استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ ان کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کی بجائے اس سانحہ پر بھی سیاست کرتے دکھائی دئیے۔پاکستان ریلوے کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسٹیشنز اور ٹرینوں میں ڈیوٹی پر مامور ریلوے پولیس، کنڈیکٹر گارڈز، ٹکٹ چیکرز و دیگر، قوانین اور ایس او پیز کے مطابق فرائض سر انجام دیتے تو یہ سانحہ ہونے سے روک سکتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ریلوے انتظامیہ، آپریشنل اور سیکیورٹی کے سنگین نقائص کے باعث تیزگام ٹرین کا سانحہ پیش آیا کیونکہ ایسے حادثات کی روک تھام پر مامور عہدیداران نے متعلقہ قوانین اور اسٹینڈرڈ آپریشن پروسیجرز (ایس او پیز) کو نظر انداز کرتے ہوئے فرائض میں غفلت برتی۔ریلوے ایکٹ 1890 کے سیکشن 59 (1) کے تحت کسی مسافر یا شخص کو ٹرین، اسٹیشن یا دفاتر میں کوئی خطرناک سامان لے جانے کی اجازت نہیں۔اسی طرح کوچنگ ٹیرف کے آرٹیکل 6.5 کے مطابق 'دھماکا خیز، خطرناک اور آتش گیر' اشیا بْک نہیں کروائی جاسکتیں۔علاوہ ازیں ریلوے ایکٹ میں شامل احتیاطی تدابیر کی شق نمبر 2 میں ٹرین کے کمپارٹمنٹس میں تیل والے چولہے اور کسی قسم کی آگ جلانے سے منع کیا گیا ہے۔پاکستان ریلوے کی رپورٹ کے مطابق 'مسافروں اور ٹرین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انتباہ جاری کی گئی ہیں، ماضی میں ایسے کیسز سامنے آئے تھے جب ایسی لاپرواہی کے نتیجے میں مسافروں کی جانیں گئیں، مسافر زخمی ہوئے اور بوگیو کو شدید نقصان پہنچا'۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹرین میں آتشزدگی کے باعث 8 ٹرینیں 4 سے 7 گھنٹے تک لیاقت پور، خان پور، رحیم یار خان، کوٹ سمبا، ترنڈہ اور سہجا کے اسٹیشنز پر کھڑی رہیں۔ریلوے عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین میں چولہے اور سلنڈرز لے جانے والے لوگ غلطی پر تھے اور اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوتے وقت ان کے سامان کی تلاشی لینے پر انہیں نہ روکنے والے ریلوے حکام بھی قصور وار ہیں۔انہوں نے کہا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیشنز اور ٹرینوں میں ڈیوٹی پر مامور ریلوے پولیس، کنڈیکٹر گارڈز، ٹکٹ چیکرز، اسٹیشن ماسٹرز، اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹرز اور دیگر افراد کو قانونی اور اخلاقی طور پر گیس سلنڈر جیسی اشیا کے ساتھ داخل ہونے والے مسافروں کو روکنا چاہیے'۔عہدیدار نے کہا کہ 'اگر انہوں نے قوانین اور ایس او پیز کے مطابق فرائض سر انجام دیے ہوتے تو وہ یہ سانحہ ہونے سے روک سکتے تھے'۔انہوں نے کہا کہ ٹرین میں سامان کے ساتھ سوار ہونے والے مسافروں کی تعداد چیک کرنے پر مامور افراد سے بھی سوال ہونا چاہیے جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مسافروں کی تعداد کوچ کی گنجائش کے مطابق ہے۔عہدیدار نے مزید کہا کہ 'میں حیران ہوں کہ اتنے زیادہ سامان کے ساتھ 85 سے زائد مسافر ایک اکانومی کلاس بوگی میں سوار ہونے میں کیسے کامیاب ہوئے جس میں صرف 75 مسافروں کی گنجائش ہوتی ہے۔روز نامہ پاکستان سے بات کرتے ہوئے پاکستان ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفسر (سی ای او) نے سیکیورٹی کی ناقص صورتحال کا اعتراف کیا اور کہا کہ انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار قرار دیے جانے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ 'یہ سچ ہے کہ سیکیورٹی اور حفاظت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے المناک حادثہ پیش آیا لہذا ہم حادثے کے ذمہ دار عہدیداران کو معاف نہیں کریں گے'۔
سی ای او نے مزید بتایا کہ انہوں نے مسافروں کو اس حوالے سے آگاہ کرنے کے لیے مہم کا آغاز بھی کیا ہے۔ہر حادثے کے بعد حکومتی لیڈر مذمت اور افسوس کے بیانات جاری کر دیتے ہیں، ہسپتالوں میں جاکر زخمیوں کی عیادت کرتے ہیں۔ حادثات کی صورت میں جان بحق ہونے والوں کیلئے 15 لاکھ فی کس اور زخمیوں کے لیے پانچ لاکھ روپے فی کس کے حساب سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔گو یہ انشورنس کی رقم ہوتی ہے مگر انسانی جانوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا حادثات پر قابو پانا ہی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔