آزادی مارچ لیکن حکومتی بیانیہ پر مبنی وہ سات نکات جن کا شاید آپ کو معلوم نہیں
لاہور (ویب ڈیسک) میڈیا پر کئی سیاسی بزرجمہر، یہ دلیل بھی دیئے جا رہے ہیں کہ مولانا نے حکومت کو ایک سیاسی جھٹکا دے دیا ہے، وہ بیک فُٹ پر جانے پر مجبور ہو گئی ہے، آئیں بائیں شائیں کر رہی ہے، کوئی ایکشن لینے سے ہچکچا ری ہے اور گومگو کی کیفیت میں گرفتار ہے۔ مولانا نے ایک چھوٹی سی سیاسی پارٹی کا قائد ہونے کے باوجود ایک بڑا سیاسی معرکہ مار لیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
روزنامہ پاکستان میں لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان نے لکھا کہ حکومت کا اپنا بیانیہ ہے۔ اور یہ بیانیہ ایسے حقائق پر مبنی ہے جن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔مثلاً:
1۔ اب تک کے دھرنے میں جو لوگ شریک ہوئے ہیں ان کا تعلق ایک مخصوص علاقے اور مخصوص ماحول سے ہے۔
2۔پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا کوئی ایک فرد بھی اس مارچ میں شریک نہیں ہوا۔کے پی کے وہ مخصوص علاقے جن میں جے یو آئی کے مقلدین پائے جاتے ہیں، وہی اس مارچ میں شریک ہوئے ہیں۔ کسی پنجابی، سندھی یا بلوچی کو اپنے ہمراہ ایک ماہ کا خشک راشن لے کر اس ”کارِ خیر“ میں حصہ لینے کی ”توفیق“ نہیں ہوئی۔
3۔نون لیگ اور پی پی پی کے جو قائدین دھرنے میں شریک ہوئے وہ شرکت محض علامتی تھی۔ وہ آئے، تقریریں کیں اور فوراً واپسی کی راہ لی۔ کسی نے جم کر مولانا کا ساتھ نہیں دیا۔ اور کسی نے بھی اپنے پنجابی /سندھی/ بلوچی رائے دہندگان کو اس مارچ یا دھرنے میں جم کر بیٹھنے کی کال نہیں دی۔
4۔دوسری طرف حکومت نے ملک کے کسی حصے سے آنے والوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ حکومت کمزور تھی۔ ساری کی ساری سیکیورٹی فورسز حکومت کے ساتھ ایک صفحے پر تھیں۔ وزیراعظم کی ایک کال پر آزادی مارچ کے قافلے کو روکا (Disrupt) جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ بلکہ جلسہ کی جو جگہ متعین تھی اس کی صفائی ستھرائی پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔ رفع حاجت کے لئے غسل خانے تعمیر کروائے گئے۔ پینے کے پانی کا بندوبست کیا گیا اور جن شرکائے جلوس کے پاس کھانے پینے کا بندوبست نہ تھا، ان کو کھانا فراہم کیا گیا۔
5۔ اسلام آباد کی ”اندرونی زندگی“ تقریباً حسبِ معمول چلتی رہی اور زیادہ Disruptنہیں ہوئی۔ اور کسی وقت بھی یہ تاثر نہ ملا کہ کوئی بڑا تعطل پیدا ہو گیا ہے۔
6۔ اسلام آباد کے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرنے کے لئے ان کو یہ پیغام دیا گیا کہ حکومت امن و امان کے قیام کے اپنے فریضے سے غافل نہیں۔
7۔ شرکائے جلوس میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے شرپسندوں کو گرفتار کرکے دنیا بھر کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز عراقی اور شامی سیکیورٹی فورسز کے علی الرغم پوری طرح چوکس اور ہر قسم کی ہنگامی حالت سے نمٹنے کو تیار ہیں۔
ایک ٹاک شو میں ایک مبصر یہ دلیل بھی لا رہے تھے کہ مولانا نے پہلی بار کھل کر افواجِ پاکستان کو للکارا ہے لیکن فوج کی طرف سے کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اس کے جواب میں افواج کا بیانیہ یہ تھا کہ ان کا مقابلہ کسی دشمن فوج سے نہیں، صرف اندرونی سلامتی کے فرائض کی بجا آوری سے ہے۔ ملک کی مشرقی سرحد پر ایک لاکھ فوج اور مغربی سرحد پر دو لاکھ فوج ہر آن تیار بیٹھی ہے۔
ہمارے دشمنوں کو یہ امید تھی کہ اس آزادی مارچ سے ملک کے اندر بڑے پیمانے پر گڑ بڑ ہو گی اور فوج کو اس سے نمٹنے کے لئے اپنے اساسی رول سے روگردانی کرنا پڑی جائے گی۔آج مقبوضہ کشمیر میں جو لاکھوں انڈین ٹروپس ڈیپلائے ہیں، ان کی ڈیوٹیاں زیادہ سے زیادہ مسلح پولیس کی ڈیوٹیوں کے مترادف کہی جا سکتی ہیں جبکہ فوج کا کام ریگولر مسلح دشمن سے لڑنا ہوتا ہے، نہتے شہریوں سے نہیں۔
انڈین آرمی گزشتہ کئی عشروں سے اپنے نہتے شہریوں سے نبردآزما ہے۔ اس لئے انڈیا، پاکستان میں اس آزادی مارچ کو منظم اور فنانس کرنے میں بالواسطہ مدد دے کر پاک آرمی کو بھی اپنی فوج کے مماثل ایک مسلح پولیس فورس بنانے کا پروگرام رکھتا تھا جسے الحمدللہ پاک فوج نے بروقت اقدام کرکے ناکام بنا دیا۔
کل کے کالم میں مولانا سے درخواست کی گئی تھی کہ کنٹینر سے نیچے اتر آئیں اور اپنے الٹی میٹم کو پاکستان گیر تحریک میں بدل دیں تو اس میں بہتوں کا بھلا ہو گا۔ مقامِ اطمینان ہے کہ مولانا نے اس مشورے پر صاد کیا اور اپنی لٹھ بردار فورس کو وزیراعظم ہاؤس میں جا کر ان کو گرفتار کرنے سے ”روک“ دیا۔
علاوہ ازیں ڈی چوک تک جانے کے احکامات بھی موخر کر دیئے۔ مولانا نے راتوں رات یہ یوٹرن کیوں لیا، کس چودھری شجاعت کے کہنے پر لیا اور کس جنرل آصف غفور کی ملفوف دھمکی نے اثر دکھایا، ان سوالوں کے جواب آنے والے ایام میں رفتہ رفتہ ملتے رہیں گے۔
اتوار اور سوموار کی درمیانی شب مولانا کا خطاب طویل بھی تھا اور ڈرامائی لب و لہجے سے بھرپور بھی تھا۔ ان کے دائیں بائیں اگرچہ مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کا کوئی نمائندہ موجود نہ تھا پھر بھی ان کا جوش و خروش دیدنی اور اندازِ خطابت شنیدنی تھا۔ چند جملے انہوں نے پشتو میں بھی ادا فرمائے جو خالصتاً ڈنڈا بردار فورس کمانڈروں کا لہو گرمانے کے لئے تھے۔
چودھری شجاعت جیسے صلح جُو سیاستدانوں کو شدت سے سرگرم عمل ہو جانے کی ضرورت ہے…… وقت بہت کم ہے اور کام بہت زیادہ!