گلگت بلتستان الیکشن کے نتائج،عام انتخابات کا ٹریلر ثابت ہوسکتے ہیں
(رپورٹر کی ڈائری،شہزاد ملک)
گلگت بلتستان کے عام انتخابات کے حوالے سے اس وقت الیکشن مہم اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اس الیکشن مہم میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپنی تمام تر دیگر سیاسی مصروفیات یعنی پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں اور اپنی سندھ حکومت کی نگرانی کے امور کو بھی چھوڑ کر پچھلے کئی دنوں سے قمر زمان کائرہ کو لیکر گلگت بلتستان میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ و ہ اب تک اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کو تقریبا آخری مرحلے میں بھی لیکر داخل ہو چکے ہیں اور انہوں نے روزانہ کی بنیادوں پر گلگت بلتستان اور سکردو کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے جلسے کئے ہیں بلکہ وہ ڈور ٹو ڈور مہم میں بھی مصروف عمل ہیں،یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ اگر سیاسی حوالوں سے دیکھا جائے تو چونکہ جو موجودہ وفاقی حکومت ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی حوالے سے عوامی غم و غصے کا شکار رہتی ہے اس لئے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو تواس کی نگرانی میں جو الیکشن کسی اور صوبے یعنی گلگت بلتستان کے الیکشن میں اس رولنگ پارٹی کی کامیابی کے امکان کم ہی بتائے جارہے ہیں مگر چونکہ گزشتہ دنوں سکردو میں وزیراعظم عمران خان نے یہاں کا دورہ کیا ہے اور وہاں کی عوام کے لئے ایک بڑا اعلان کیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس مرتبہ کوئی اپ سیٹ ہو جائے مگر سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ سکردو اور گلگت بلتستان کے عام انتخابات کے حوالے سے اب تک جتنے بڑے جلسے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے ہوئے ہیں وہ اور کسی پارٹی کے نہیں ہوئے ہیں دوسرا اس صوبے کے لئے کام ہی پیپلز پارٹی نے کیا تھا اس کو نام اور ایک الگ شناخت دی تھی اس لئے پیپلز پارٹی کے اس الیکشن میں بھی واضح برتری کے روشن امکانات موجود ہیں،دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے بھی آج پانچ نومبر سے گلگت بلتستان کی انتخابی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ سات روز تک ادھر ہی قیام کریں گی جس میں وہ اپنے انتخابی جلسے جلوس اور انتخابی ریلیاں بھی نکالیں گی۔اسی طرح سے یہاں پر جے یو آئی (ف) بھی اپنی ایک آزادنہ انتخابی مہم چلا رہی ہے چونکہ گزشتہ الیکشن میں جے یو آئی دوسرے نمبر پر رہی تھی اور اب بھی اس جماعت کی دوسرے نمبر پر کامیابی کی باتیں ہو رہی ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) یہاں پر کسی سیاسی اتحاد بنا کر الیکشن لڑنے کی بجائے الگ الگ بلکہ ایک دوسرے کے مد مقابل الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اس الیکشن کے نتائج کا تاج کس سیاسی جماعت کے سر پر سجے گا اس کا فیصلہ تو یہاں کی عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے پندرہ نومبر کو کردیں گی تاہم سیاسی پنڈتوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ الیکشن حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے لئے آنے والے عام انتخابات کا ایک ٹریلر بھی ثابت ہو سکتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ کوئی اتنے بڑے انتخابات نہیں ہیں تاہم اس الیکشن میں سب سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی اب تک کی کارکردگی کا پتہ چل جائے گا کہ ان سے عوام کس حد تک مطمئن ہیں۔
گلگت بلتستان