مزید قیام بھارت کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا؟” لہٰذا مریضو! چلو پاکستان!“

مزید قیام بھارت کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا؟” لہٰذا مریضو! چلو پاکستان!“
مزید قیام بھارت کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا؟” لہٰذا مریضو! چلو پاکستان!“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:40
بھارت کو کم ظرف ‘ تنگ دل‘ مُعتصِّب اور ہندو کو بنیا کہہ کر پکارنا ان کا عام انداز ہے۔
300صفحات کی ”ہمہ یاراں دوزخ‘ ‘ میں صرف ایک بھارتی شخص ایسا ہے جس کا سالک نے اچھے الفاظ میں ذکر کیا ہے یہ کلکتہ کیمپ کا ڈاکٹر چکر وتی تھا جس نے گردے کی تکلیف کے باعث سالک کو سیل سے ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی تھی لیکن جیل کا عملہ اس پر راضی نہ ہوا۔
صدیق سالک کی بھارت سے نفرت ملک‘ شہر ‘حکومت ‘ عوام حتیٰ کہ جانوروں تک پھیلی ہوئی ہے۔ قید میں پاکستان اور بھارت کے ہاکی میچ میں پاکستان کی فتح پر لکھتے ہیں:
”میں نے بلی کی طرف دیکھا کہ وہ ہماری خوشی میں شریک ہے یا نہیں۔وہ سر جھکائے اپنے بچوں کوچاٹ کرخاموش رہنے کی تلقین کر رہی تھی.... آخر بھارتی بلی تھی نا! ہماری خوشی میں کیسے شریک ہوتی!“
کہیں کہیں صدیق سالک نے بھارت کے مثبت اقدامات کو بھی منفی لباس پہنانے کی کوشش کی ہے۔جس سے ان کا انداز غیر حقیقی ہو گیا ہے مثلاً ”شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں“ کے باب میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ بعض مریضوں کو جن کی حالت زیادہ تشویشناک تھی پاکستان بھجوایا گیا۔ لیکن ان کے مطابق اس کی وجہ بھارت کی ہمدردی نہیں بلکہ کچھ اور تھی۔
ان کی وطن واپسی کی وجہ انسانی ہمدردی نہیں بلکہ بھارت کا حسابی کتابی ذہن تھا ایک بھارتی افسر سے پتہ چلا کہ بھارت نے دو جمع دو چار کرکے فیصلہ کیا کہ ان مریضوں پر صرف ہونے والی ادویات کی قیمت ان مریضوں کی یر غمالی حیثیت سے تجاوز کر جائے گی ‘ اس لیے بھارت میں ان کا مزید قیام بھارت کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا؟ ناممکن !! لہٰذا مریضو! چلو پاکستان!“ البتہ جو پیچھے رہ گئے ان کے علاج معالجے کے لیے نہ وسائل تھے نہ ارادہ نہ توجہ تھی نہ لگن۔“
یہاں بھارتی اقدام کے متعلق سالک کی توجیہہ حقیقت سے دور معلوم ہوتی ہے۔ جب بھارتی حکومت2سال تک90 ہزار قیدیوں کے قیام وطعام کے اخراجات برداشت کر سکتی تھی تو چند مریضوں کو صرف علاج کے اخراجات کی وجہ سے پاکستان بھیجنا درست نہیں معلوم ہوتا پھر سالک نے جنگی قیدیوں کے ہسپتال اور مریضوں کی حالت زار کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ ان کا خاطر خواہ علاج نہیں ہورہا تھا تو پاکستان بھیجے گئے مریضوں سے بھی ایسا ہی سلوک کر سکتے تھے۔ سالک کے بیان کا پہلا جواز البتہ معقول نظر آتا ہے کہ وہ دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ وہ مریضوں سے بہت ہمدردی رکھتے ہیں‘ لیکن مالی نقصان یا فائدے کی بات قرین قیاس نہیں معلوم ہوتی۔
معروف ادیب مسعود مفتی بھی جنگی قیدیوں میں شامل تھے۔وہ ان مریضوں کی وطن واپسی کی بابت لکھتے ہیں:
”دنیا بھر کے ریڈیو خبر سنارہے تھے کہ زخمی اور بیمار جنگی قیدیوں کا پہلا گروپ آج پاکستان پہنچ رہا ہے اور میں بریلی میں جنگی قیدیوں کے ہسپتال میں لیٹا ہوا یہ دیکھ رہا ہوں کہ مجھ سے چند گز دورایک بیمار قیدی قریب المرگ ہے اور اس کے ہمسائے مریض اس کے سرہانے بیٹھ کر سورة یٰسین پڑھ رہے ہیں قریب ہی ایک اور مریض پڑاہے جو سال بھر سے چارپائی سے اٹھ نہیں سکا مگر ان کو اس لیے واپس نہیں کیا گیا کہ مکار ہندو بہتر حالت والے مریض بھیج کر دنیا کو یہ تاثردینا چاہتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو اچھی طرح رکھا جارہا ہے۔ چند دنوں بعد جب یہ دونوں مریض مر گئے تو ان کی لاشیں بھی سیاسی مصلحتوں سے یہ سوال کر رہی تھیں۔ “ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -