علامہ اقبال ؒ آنے والے زمانوں کے شاعر

علامہ اقبال ؒ آنے والے زمانوں کے شاعر
علامہ اقبال ؒ آنے والے زمانوں کے شاعر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


علامہ اقبال کی شاعری کو کسی خاص زمانے، وقت یا علاقہ کے لیے مقیّد نہیں کیا جا سکتا کہ اقبال ایک آفاقی شاعر ہے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ علامہ اقبالؒ کی شاعری کے عروج کا زمانہ برصغیر میں تحریک ِ آزادی کی جدوجہد کا زمانہ بھی تھا۔ لہٰذا اقبال کی شاعری میں آزادی کی امنگ، ترنگ، تڑپ اور جہدِ مسلسل کا پیغام جاں فزا ہے مگر اصل اقبال کی شاعری کی روح کیا ہے۔ اسے سمجھنا ذرا مشکل ہے کہ اقبال خود اپنے بارے میں بھی یہ فرماتے ہیں کہ 
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخّر نہیں واللہ نہیں ہے
اقبال ہجر و وصال میں تڑپنے والا روایتی شاعر نہیں ہے۔ نہ ہی اْس نے اپنا موضوعِ سخن گل و بْلبل کی داستانوں کو بنایا، وہ روایتی ڈگر سے ہٹ کر شاعری کرتا ہے اور اپنی شاعری میں خوابِ خرگوش میں مست مسلمانوں کو حیاتِ نو اور بیداری کا ایک متحرک پیغام دیتا ہے، وہ مسلمانوں کے روشن اور تابناک ماضی میں جھانکتے ہوئے ایک خوش کن اور امید افزا مستقبل کی نوید اتنی گونج دار آواز میں سناتا ہے کہ دلوں میں ایک ولولہ تازہ بیدار ہوتا ہے۔ برِصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی حمیّت کو بیدار کرتے ہوئے اتفاق و یکجہتی کا پیغام اتنی بھرپور آواز میں دیتا ہے کہ اس کی بات دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔ وہ مسلم قوم خصوصاً مسلم نوجوانوں کی غیرتِ ملّی، جذبہ خودی و خود شناسی کو اس طرح جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اس تحریک آزادی کے دلوں کی دھڑکن بن جاتا ہے۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گْردوں تھا ہے جسکا تو اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا  ہے آغوشِ محبت  میں 
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
علامہ اقبالؒ صرف عصرِ حاضر کا شاعر ہی نہ ہے بلکہ آنے والے زمانوں کا شاعر ہے۔ اْن کی شاعری کا تو زیادہ موثر اور فکر انگیز حصّہ فارسی زبان میں ہے اور ہماری بد قسمتی کہ ہم نے مدّت سے فارسی زبان کو فراموش کر دیا۔ اقبال کی شاعری پر پاکستان سے زیادہ ایران میں کام ہوا اور فارسی ایران کی مادری زبان ہونے کے ناتے ایرانی قوم اقبال کی شاعری سے زیادہ مستفید ہو رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں تو اقبال کی شاعری کو زیادہ تر گانے والوں اور قوالوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ 
اگر علامہ اقبالؒ کا صرف پیغامِ خودی ہی ٹھیک تناظر میں سمجھ لیا جائے تو یہ انسان کو دیدۂ حق شناس جیسی گراں قدر نعمت سے ممتاز کر دیتا ہے۔ اقبال اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے مقصد نہیں بنایا بلکہ حیات انسانی کی پیدائش میں بے شمار اعلیٰ مقاصد پنہاں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان سے زیادہ کوئی خوبصورت مخلوق تخلیق نہیں کی۔ اقبال کی شاعری اس بات کی غماض ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبصورت مگر عظیم صفات سے متصف کیا ہے۔اسے عالم، با اختیار، با ارادہ، متکلّم، بینا، مدبّر اور حکیم بنایا ہے اور ساری مخلوق کو اس کے سامنے سر افگندہ کر دیا۔ علامہ اقبالؒ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ان نعمتوں کی ناقدری کرنے والوں سے انسانیت کی خلعت ِ فاخرہ واپس لے لی جاتی ہے اور جو قومیں وقت کے تقاضوں کے مطابق وقت کی رفتار سے آگے نہیں بڑھتیں، ترقی نہیں کرتیں، شعور و آگاہی کی منازل طے نہیں کرتیں، روایتی سْستی اور کاہلی کا شکار رہتی ہیں۔ وہ زمانہ سے پیچھے رہ جاتی ہیں اور وہ ان سارے علوم و فنون، اسرار و معارف، انکشاف و ایجادات اور ترقی و کمالات سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ بنیادی طور پر اقبال جمود اور تقلید کے خلاف ہے، وہ جدت پسندی، خیالات و افکار کی اْونچی اْڑان، قلب و نگاہ کی پاکیزگی، عزتِ نفس کی سروری، قول و عمل کی پختگی اور اللہ پر یقین کامل اور بھروسہ اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی کا حسین و دلکش پیغام اپنے خوبصورت اور منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ 
ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم اقبال کے اس پْر مغز اور آفاقی کلام کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ہم نے شاید کلام اقبال کو صیحح تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی۔ کوشش ہو بھی کیسے سکتی تھی کہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد یہ وطن عزیز جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ابن الوقت سیاست دانوں کے چنگل میں چلا گیا۔ اوپر سے محّلاتی سازشیں، حکومتیں بنتی رہیں اور گرتی رہیں۔ کسی بھی لیڈر یا حکومت کے پاس اقبال کے  پیغام جان فزا کو سمجھنے اور اْس پر عمل کرنے کا نہ وقت تھا نہ ضرورت۔ لہٰذا ہمارے مقدر میں ہزیمت اور رسوائی ہی آنا تھی۔ جب قومیں ایک واضح نصب العین سے ہٹ کر وقتی مفادات کے لیے اپنی عزت و حمیّت کا سودا انتہائی سستے داموں کر دیں تو کیا خودی اور کیا خود شناسی 
غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
مگر وائے افسوس کہ اس قوم کے لیڈروں نے بار بار اس خودی پر کمپرومائز کیے۔ اس ملک کو ایک فلاحی، لبرل ریاست بنانے کی بجائے جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا ہم نے اسے ایک بے وقار، مقروض اور شدت پسند ریاست میں تبدل کر دیا اور پھر نہ ہمارے پاس خودی بچی،نہ آس، نہ اْمید۔ اقبال جو اْمید اور مستقبل کا شاعر تھا ہم نے اْس کے پیغام کو فراموش کر دیا۔ اقبال تو خودی، شاہین، نوجوان، عشق حقیقی، جہدِ مسلسل، آزادی، انسانی حمیّت و غیرت کا پیغام بر شاعر تھا۔ مگر ہم نے تو اس سارے  پیغام اور مشن کو فراموش کرتے ہوئے انسانی اقدار کی اس بْری طرح پامالی کی کہ اب تو کلامِ اقبال پڑھتے ہوئے بھی حجاب آتا ہے۔ لہٰذا جو قومیں زمانے میں کسی عزم نو سے ابھرنا چاہتی ہیں۔ جو وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا چاہتی ہیں جو عزمِ صمیم اور آہنی عزم اور ارادہ سے استحصال و نا انصافی کو کچلتے ہوئے ترقی کا خواب دیکھنا چاہیں گی اْنہیں کلام اقبال سے روشن راہنمائی میسّر رہے گی، اس لیے یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اقبال آزادی کی تحریک میں ایک توانا اور دلوں کو گرمانے والی آواز تھی جس نے ہماری تحریک آزادی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا مگر بعد از آزادی ہم نے دیدہ و دانستہ اْسے فراموش کر دیا۔ لہٰذا اب اقبال اْس قوم کا شاعر ہو گا جو اْسکے  پیغام کو نہ صرف سمجھے گی بلکہ اْس ہر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سر اْٹھا کر جینا سیکھے گی۔

مزید :

رائے -کالم -