عمران خان پر حملہ

عمران خان پر حملہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گوجرانوالہ سے متصل وزیر آباد کے اللہ والا چوک میں لانگ مارچ کے دوران چیئرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کی گئی، ان کی پنڈلی میں گولیان لگیں اور ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی، اس کے علاوہ فیصل جاوید، سابق سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے احمد چٹھہ اور مقامی پی ٹی آئی رہنما چوہدری محمد یوسف سمیت 10 افراد زخمی ہوئے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ  ایک پی ٹی آئی کارکن محمد معظم موقع ہی پر جاں بحق ہو گیا۔ عمران خان کو فوری طور پر شوکت خانم ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا  جہاں وہ روبصحت ہیں۔واقعے کے بعد کنٹینر کو سیل کر دیا گیا، پولیس اور فارنزک ٹیموں نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں۔ اِس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، ایسے واقعات امن و امان تباہ کرنے کا باعث بن سکتے اور جسد ِ سیاست کو بری طرح مجروح کر سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے عمران خان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا اور باعث اطمینان بات ہے کہ وہ خطرے سے باہر ہیں۔یقینایہ ایک انتہائی مشکل صورت حال تھی، انتہائی ناخوشگوار واقعہ تھا، ایسے موقع پر لوگوں رنجیدہ ہوتے ہیں، جذباتی  ہو جاتے ہیں اور انہیں کسی بھی انتہائی اقدام اٹھانے کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے۔ایسے میں تمام سیاست دانوں خصوصاً کسی بھی جماعت کی لیڈرشب پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ واقعے کے کچھ دیر بعد ہی فواد چوہدری  انتقام لینے کا اعلان کر بیٹھے، پھر تھوڑی دیر بعد تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے ویڈیو پیغام جاری کیا،جس میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اُنہیں اور میاں اسلم اقبال کو بلایا اور کہا کہ اُن کی طرف سے قوم کو یہ پیغام دو کہ اُن کے پاس پہلے سے معلومات تھیں، معلومات کی بنیاد پر اُن کا یقین ہے کہ تین لوگوں نے یہ سب کچھ کروایا ہے اور یہ تین لوگ شہبازشریف، رانا ثنااللہ اور ایک خفیہ ایجنسی کا سینئر افسر ہے، اِن تینوں کو فی الفور اپنے عہدوں سے ہٹایا جائے، اگر نہ ہٹایا گیا تو ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے کارکن تو پہلے ہی کسی بھی حد تک جانے کو تیار بیٹھے تھے،ملک میں مختلف مقامات پر احتجاج کا سلسلہ تو شروع ہو چکا تھا اس قسم کے پیغامات سے جذبات میں مزید اشتعال پیدا ہو سکتا تھا۔ واضح رہے کہ متعلقہ حکام نے عمران خان پر حملے سے متعلق مئی میں ایک الرٹ بھی جاری کیا تھا، ان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کو اس کی بھی اطلاع تھی، جس کے بعد عمران خان کی سیکورٹی سخت کر دی گئی تھی۔ لانگ مارچ شروع ہونے سے قبل ہی تحریک انصاف کے سابق رہنما فیصل واوڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں لانگ مارچ کے دوران ایسی کسی بھی کارروائی کے بارے میں پیش گوئی کی تھی لیکن ان کی بات کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ الٹا ان پر الزامات بھی لگے اور پارٹی سے باہر بھی کر دئیے گئے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آئی جی پنجاب  نے 26اکتوبر کو لانگ مارچ کی سیکیورٹی کے حوالے سے گائیڈ لائنز جاری کیں تھیں لیکن انہیں کسی خاطر میں نہیں لایا گیا۔تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری بھی اپنی ٹویٹ میں یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کو بھی ایسے حملے کے بارے میں اطلاعات تھیں، اسد عمر بھی یہ اعتراف کر رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب یہ حضرات اس آنے والے خطرے کے بارے میں جانتے تھے، ان کے پاس اطلاعات تھیں تو پھر حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟آئی جی پنجاب کے لانگ مارچ سے متعلق جاری کیے گئے ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانا کس کی ذمہ داری تھی؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ فائرنگ کے بعد مبینہ طور پر ایک ملزم گرفتار ہوا، چند گھنٹوں کے بعدہی اس کے دو مختلف اقبالی بیانات لیک ویڈیوز کی صورت میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے لگے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس کے بیانات میں بہت تضاد پایا جاتا ہے، اس نے اس کارروائی کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش بھی کی، یہی وجہ ہے کہ مبینہ ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملزم نوید کی نشاندہی پر مزید دو افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے اسلحہ مہیاکیا۔ جائے وقوعہ کی منظرعام پر آنے والی ویڈیوز میں پہلے ایک برسٹ کی آواز آئی اور پھر ایک گولی چلنے کی آواز آئی، اب ان ویڈیوز اور آوازوں پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لئے تحقیقات کا سہارا لینا لازم ہے۔ابھی تو یہ واقعہ پنجاب میں ہوا ہے،یہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق) کے اتحاد کی صورت ان کی اپنی حکومت موجود ہے۔ایسے میں فضول بحث میں الجھنے کی بجائے بنیادی باتوں پر غور کرنا ضرور ی ہے، اس پیغام کے بعد بعض نامعلوم افراد کی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں وزیر داخلہ سے بدلہ لینے کی بات کی گئی۔چوہدری پرویز الٰہی تجربہ کار وزیراعلیٰ ہیں،انہوں نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے امید کی جانی چاہیے کہ تحقیقات جلد از جلد مکمل ہو گی،اور اس افسوسناک واقعے کے ذمہ داروں تک قانون کا ہاتھ پہنچے گا۔عمران خان صاحب کو اللہ نے بچا لیا ہے اِس پر پوری قوم کو یوم تشکر منانا چاہیے تھا(بلکہ اب بھی منانا چاہیے)۔پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد الزام تراشی اور انتشار پھیلانے کے بجائے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا، ویسے ہی تحریک انصاف کی قیادت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے آگ پر پانی ڈالنا چاہئے۔اب بھی وقت ہے معاملات کو فہم و فراست  کے ذریعے طے کیا جائے۔ تحریک انصاف کو تحقیقات کے نتائج سامنے آنے تک کسی قسم کے مزید نقصان کے بچاؤ کے لیے احتجاج کو موخر کر دینا چاہئے۔سیاسی جماعتیں اگر ایک دوسرے سے الجھنے ہی میں کامیابی سمجھیں گی، تو پھر انہیں بحیثیت مجموعی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے۔پاکستان کے تمام باسیوں کو پاکستان کا مفاد ہمیشہ مقدم رکھنا چاہیے کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں، معاملات کو دستور کے دائرے میں رکھنا ہر کسی جماعت اور ہر کسی شخص کے مفاد میں ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -