ہر طرف اتنی خاموشی تھی کہ اسے برف گرنے کی سرسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی

ہر طرف اتنی خاموشی تھی کہ اسے برف گرنے کی سرسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی
ہر طرف اتنی خاموشی تھی کہ اسے برف گرنے کی سرسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
 قسط:67
معاملات میں پیچیدگی گرمیوں میں پیدا ہونا شروع ہوئی۔ اونا اپنی شکستہ آواز میں یورگس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتی لیکن بے سود۔ الزبیٹا کی تسلّی بھی اس کی تشفّی نہ کرتی۔ اسے لگتا تھا کہ کچھ بہت بُرا ہونے جارہا ہے۔ ایک دو بار مشکل وقت میں اس نے اونا کی آنکھوں کو دیکھا۔ اسے ان آنکھوں میں وہ وحشت نظر آئی جو شکاری کی زد پر آئے ہوئے جانور کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ وہ دیوانہ وار روتے ہوئے بے ربط جملوں میں کچھ کہتی تھی لیکن جانے کیا ! لیکن یورگس خود اتنا شکست خوردہ ہو چکا تھا کہ اس نے زیادہ فکر نہیں کی۔ لیکن یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔ وہ ایک بار برداری کے جانور کی طرح صرف لمحۂ موجود میں جینے لگا تھا۔
سردیاں پھر آرہی تھیں، پہلے سے زیادہ تلخ اور مشکل۔ 
اکتوبر کا مہینا تھا اور چُھٹیوں کے استقبال کے لیے کام میں تیزی آرہی تھی۔ کرسمس کے ناشتے میں کھانے کے لیے خوراک کی تیاری کے لیے پسائی والی مشین رات گئے تک کام میں مصروف رہتی۔ ماریا، الزبیٹا اور اونا جو مشین ہی کا حصّہ تھیں روزانہ پندرہ سولہ گھنٹے کام کرتیں۔ مرضی کا کوئی سوال نہیں تھا، جو کام بھی کرنے کو ہوتا، کرنا پڑتا تھا۔ انہیں اپنی نوکری بچانے کے لیے اور روزینے میں اضافے کے لیے جیسے تیسے یہ بوجھ ڈھونا پڑتا تھا۔ وہ صبح 7 بجے کام شروع کرتیں، دوپہر کے کھانے کے بعد رات دس گیارہ بجے تک بغیر کچھ کھائے پیے کام میں لگی رہتیں، چونکہ کھاد فیکٹری میں اووَر ٹائم بند تھا اس لیے یورگس چاہتا تھا کہ وہ ان کا انتظار کرے تاکہ گھر پہنچنے میں ان کی مدد کر سکے لیکن انہیں یہ بات منظور نہیں تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ فیکٹری کے باہر انتظار کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی سوائے شراب خانے کے۔ وہ رات گئے اپنے اپنے کام سے لڑکھڑاتی ہوئی باہر نکلتیں اور موڑ پر اکٹھی ہوتیں۔ اگر ان میں سے کوئی پہلے چلی گئی ہوتی تو رہ جانے والی جیسے تیسے گاڑی میں سوار ہوتی اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے گھر کا رخ کرتی۔ گھر پہنچنے پر وہ سب اتنے تھکے ہوتے کہ کچھ کھانے یا کپڑے بدلنے کی ہمت بھی باقی نہ رہتی۔ وہ جوتوں سمیت بستر میں گھستے اور بے سدھ سو جاتے۔ محنت ہی سے وہ اتنا کما سکتے تھے کہ سردیوں میں گزارے لائق کوئلا خرید سکیں اوراگر وہ ذرا سی کمزوری دکھاتے تو زندہ بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔
تھینکس گِونگ ڈے (Thanksgiving Day) سے ایک دو دن پہلے برف کا طوفان آیا۔ سہ پہر کو برف باری شروع ہوئی، شام تک 2 انچ تک برف پڑ چکی تھی۔ یورگس نے عورتوں کے انتظار کی کوشش کی، اس نے سیلون میں جاکر گرمائش کے لیے دو جام بھی پیے لیکن باہر نکلا تو برف کے عفریت سے ڈر کر گھر بھاگنا پڑا۔ گھر پہنچ کر وہ پہلے تو لیٹا ان کی راہ دیکھتا رہا لیکن پھر جانے کب سو گیا۔ اس کی آنکھ کھلی تو اسے لگا وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہے۔ الزبیٹا رو رو کر اسے جگانے کے لیے جھنجھوڑ رہی تھی۔ پہلے تو اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا کَہہ رہی ہے۔۔۔ اونا گھر نہیں آئی تھی۔ اس نے پوچھا کہ کیا وقت ہوا ہے تو بتایا گیا کہ صبح ہوچکی ہے یعنی کام پر جانے کا وقت ہوچکا تھا۔ اس رات اونا گھر ہی نہیں آئی تھی۔ سردی انتہا کی تھی اور زمین پر1 فٹ موٹی برف کی تہہ بن چکی تھی۔
یورگس گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ماریا خوف سے اور بچے ہمدردی سے رو رہے تھے۔ ننھا سٹینس بھی برف کے خوف سے رو رہا تھا۔ یورگس کے پاس پہننے کے لیے جوتے اور کوٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ آدھ منٹ میں وہ گھر سے باہر تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ جلدی کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ اسے کس طرف جانا چاہیے۔ ابھی گہرا اندھیرا تھا جیسے آدھی رات ہو۔ برف کے گھنے گالے برس رہے تھے۔ ہر طرف اتنی خاموشی تھی کہ اسے برف گرنے کی سرسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی۔ جتنی مختصر دیر میں وہ کھڑا فیصلہ کرنے کی کوشش کرتا رہا اتنی دیر میں خود برف سے سفید ہوگیا۔
وہ بھاگتا ہوا یارڈز کی طرف چلا۔ راہ میں رک کر وہ کھلے سیلونز سے بھی پوچھتا جاتا۔ کہیں اونا راستے میں گر نہ گئی ہو یا مشین میں آکر کچلی نہ گئی ہو۔ جب وہ وہاں پہنچا جہاں اونا کام کرتی تھی اور چوکی دار سے پوچھا تو یہ تسلّی ہوگئی کہ کوئی حادثہ نہیں ہوا تھا۔ ٹائم آفس میں کلرک نے بتایا کہ اونا نے کل رات کام سے چھٹی کے وقت حاضری لگائی تھی۔
اس کے بعد اس کے پاس سوائے برف میں ٹہل ٹہل کر انتظار کے اور کوئی کام نہیں رہ گیا تھا۔ یارڈز میں کام شروع ہوچکا تھا۔ گاڑیوں میں لدے مویشی اتارے جانے لگے تھے۔ پو پھٹتے ہی ٹھٹھرتے مزدوروں کا ہجوم آنا شروع ہو گیا۔ یورگس ٹائم آفس کی کھڑکی کے پاس جم کر کھڑا تھا کیوں کہ وہیں اتنی روشنی تھی کہ کچھ دکھائی دے جاتا۔ برف باری اتنی شدید تھی کہ اسے آنکھیں سکیڑ کر دیکھنا پڑ رہا تھا کہ کہیں اونا گزر نہ جائے۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -