جسے چاہیں حاکم منتخب کریں‘ مگر خدارا! اس دھرتی کےخلاف کچھ نہ کہیں اس کی قدر کریں

جسے چاہیں حاکم منتخب کریں‘ مگر خدارا! اس دھرتی کےخلاف کچھ نہ کہیں اس کی قدر ...
جسے چاہیں حاکم منتخب کریں‘ مگر خدارا! اس دھرتی کےخلاف کچھ نہ کہیں اس کی قدر کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:41
سالک نے بھارتی حکام کے منفی پہلو بیان کرنے کے ساتھ ان کے کسی مثبت اقدام کا اعتراف نہیں کیا مثلاً یہ تو ذکر کیا ہے کہ قید یوں کو گزارہ الاﺅنس ملتا تھا۔ اس کی تفصیل بھی حواشی میں دی ہے کہ نیم لفٹین سے کپٹن تک کو 96روپے اور میجر اور لیفٹنٹ کرنل کو110 روپے ماہانہ ملتے تھے۔ اب قیدی کو گزارہ الاﺅنس ملنا یقینا انصاف کی دلیل ہے لیکن سالک نے اس کا اعتراف نہیں کیا۔
ایک اور جنگی قیدی میجر طیب ظہوربٹ نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے زیادہ تر صدیق سالک کی باتوں کی تائید کی ہے لیکن اس ضمن میںان کا تجربہ کچھ مختلف بھی ہے: 
”بھارتی حکام قیدیوں کو مختلف انداز سے تنگ کرتے‘ بے عزت کرتے ‘ ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچاتے ان کے کئی آفیسر ز کو اس پر سزائیں بھی ہوئیں میرے کیمپ میں ایک ہندوستانی میجر کو تنگ کرنے اذیت پہنچانے اور ہماری گھڑیاں ‘ پیسے اور قیمتی اشیاءہڑپ کرنے پر کپتان بنا دیا گیا تھا-“ 
سالک نے اس قسم کی کسی تادیبی کارروائی کا ذکر نہیں کیا جو حکام نے بھارتی افسروں کے خلاف کی ہو۔
بھارت سے نفرت کے معاملے میں صدیق سالک کی شدت کچھ عجیب معلوم ہوتی ہے۔اس کی کچھ تو عمومی وجوہ ہیں شروع سے ہی دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف حریفانہ جذبات رکھتے ہیں۔ انہی اختلافات کی بناءپر ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی اس لیے ایک تو حریفانہ روئیے کا یہ عام جذبہ ہے جو سرحد کے دونوں پار یکساں ہے۔ پھر جس ملک کے ساتھ دو جنگیں ہو چکی ہوں ظاہر ہے اس سے خوشگوار یادیں تو وابستہ نہیں ہونگی۔ پھر ان دونوں جنگوں کے وقت سالک پاک فوج کا حصہ تھے جہاں وہ ایک عام پاکستانی کی نسبت جنگ کو قریب سے دیکھتے تھے۔ لیکن سب سے بڑی وجہ اس ضمن میں تقسیم سے پہلے کا زمانہ ہے سالک نے قیام پاکستان سے پہلے 12 سالہ زندگی ہندوﺅں کے درمیان گزاری ان کا یہ تجربہ کچھ اچھا نہیں تھا اس کے متعلق لکھتے ہیں: 
”ہمارے گاﺅں میں غربت بہت تھی۔ساہو کار صرف چند تھے‘ وہ بھی ہندو تھے جس کسی کو بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی وہ ہندو کی طرف جاتا تھا اور ہمیشہ کے لیے غلام ہو جاتا تھا۔ ایک ہندو کیریکٹر مجھے آج تک یاد ہے اس کا نام گنپت راج تھا منہ کا میٹھا اخلاق ایسے کہ بچھا جاتا تھا۔ کوئی ضرورت مند آتا تو اسے عزت سے بیٹھاتا ‘ میٹھی میٹھی باتیں کرتا حال احوال پوچھتا اور تھوڑی سی رقم دے کر کسی کا کھیت اپنے نام کرا لیتا‘کسی کے مکان کے کاغذات پر انگوٹھا لگوا لیتا۔ گنپت راج بہت میٹھی چھری سے ذبح کرتا ‘دیہاتی سادہ لوح اوران پڑھ ہونے کی وجہ سے انگوٹھا لگانے کی اہمیت کو نہ سمجھتے تھے اور اس طرح سود در سود قرض ‘عمر بھر کا عذاب بن جاتا تھا وہ ہندوہماری مجبوریوں کو خوب ایکسپلائیٹ کرتے تھے اورہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت مسلم لیگ کی موومنٹ چل رہی تھی قائداعظم آزادی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے بہت سے لوگ پاکستان کی اہمیت سے بے خبر تھے خدا نخواستہ پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا تو ہم ہندوکی معاشی اور سماجی غلامی سے کبھی نجات حاصل نہ کر سکتے تھے۔ آج ہم سیاسی ‘ سماجی اور معاشی اعتبار سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ہم پر یہ احسان پاکستان کا ہے اللہ کا یہ بہت بڑا انعام ہے اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ملک کے دانشور ہوں یا ادیب ‘ تاجر ہوں یا صنعت کار یا سیاستدان وہ جیسا چاہیں نظام لائیں ‘ جسے چاہیں حاکم منتخب کریں‘ مگر خدارا! اس دھرتی کے اور جنت کے خلاف کچھ نہ کہیں اس کی قدر کریں۔“ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -