مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:75
اس کے بعد مشرقی پاکستان کے ایک اور نمایاں اور بزرگ سیاست دان مولانا بھاشانی نے ڈھاکہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مجیب الرحمٰن بنگلہ دیش بنانا چاہتا ہے اور اس سلسلہ میں سی آئی اے اُس کی مدد کر رہی ہے۔ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے ڈھاکہ میں اس منصوبہ کا نہ صرف انکشاف کیا بلکہ بہت سی دستاویزات بھی پریس میں تقسیم کیں۔ حکومت نے اگرتلہ سازش کیس کے تحت شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کر لیا۔ اس پر عوامی لیگ کے مرکزی صدر نوابزادہ نصر اللہ خان نے اُنہیں عوامی لیگ سے نکال دیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے جیل سے ہی اپنی عوامی لیگ بنانے اور اس کا خود سربراہ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ اگرتلہ سازش کیس کی سماعت کے لئے ایک ٹربیونل بنایا گیا جس کے سربراہ مسٹر جسٹس ایس اے رحمان تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے آخری زمانہ میں اپوزیشن پارٹیوں کے مشترکہ مطالبہ پر جس میں ایئرمارشل اصغر خان بہت نمایاں تھے گول میز کانفرنس ہوئی جس میں شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی بلایا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات کا اعلان کیا اور مذاکرات میں ایسا رویہ اختیار کیا کہ گول میز کانفرنس ناکام ہو گئی۔ ایوب خان پاکستانی سیاست دانوں کے رویہ سے شاکی تھے کہ یہ سب لوگ ایک ایسے سیاست دان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کانفرنس کی ناکامی کا یہ کہہ کر اعلان کیا کہ میں پاکستان کو توڑنے میں کسی بھی طور شریک نہیں ہو سکتا…… اور کچھ دنوں کے بعد وہ جنرل یحییٰ خان کو اپنا جانشین بنا کر مستعفی ہو گئے۔
مغربی پاکستان میں نئی سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو مقبول ترین لیڈر تھے جبکہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن مقبول ترین لیڈر اور عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت تھی۔ مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے برائے نام عہدیداران موجود تھے مگر اُن کی کوئی عوامی حیثیت نہیں تھی۔ اس طرح مشرقی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے عہدیداران موجود تھے مگر حیثیت صفر تھی۔ انتخابات ہوئے مشرقی پاکستان میں صرف 2نشستوں سے جناب نورالامین اور راجہ تری دیورائے کامیاب ہوئے۔ باقی نشستیں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کے پاس تھیں۔ مغربی پاکستان میں پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے جبکہ صوبہ سرحد یعنی خیبرپختونخوا میں مناسب تعداد میں کامیاب ہوئی۔ بلوچستان سے بھی بھٹو صاحب کو ایک آدھ نشست مل گئی تھی۔
پاکستان کے کل 5 انتخابی یونٹ تھے۔ عوامی لیگ صرف ایک یونٹ میں بھاری اکثریت رکھتی تھی جبکہ پیپلز پارٹی تین انتخابی یونٹس میں۔ذوالفقار علی بھٹو کا مؤقف تھا کہ وہ شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانا چاہتے ہیں جبکہ مغربی پاکستان کے بہت سے سیاست دان اس کوشش میں مصروف تھے کہ شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان زیادہ گہرے اختلافات پیدا کئے جائیں تاکہ یہ دونوں باہم مل کر حکومت نہ بنا سکیں ا ور بعض سیاست دان تو آج تک یہ کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو وفاقی حکومت دے دی جاتی تو پاکستان ایک رہتا اور جمہوریت مضبوط ہوتی۔ کیا یہ سچ ہے……؟ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔