مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:52
جیساکہ سب کو علم ہے یہ کوئی اتنی لمبی چوڑی جنگ تو نہیں تھی، کچھ روز ہی جاری رہی اور بہت جلد ہی بڑی عالمی طاقتوں نے بیچ میں پڑ کر دونوں ملکوں میں جنگ بندی کروا دی۔ تاہم یہ مصر اور اسرائیل،دونوں کے لئے ہی بہت تلخ یادیں بھی چھوڑ گئی تھی۔ اسرائیل نے جہاں ایک بار پھر مصر کے بہت سارے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، تو دوسری طرف یہ جنگ اس کے منھ پر ایک شدید طمانچہ بھی ثابت ہوئی کہ وہ اپنے قیام کے بعد پہلی دفعہ کسی ہزیمت سے دوچار ہوا تھااور اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم چور چور ہوگیا تھا۔
تاہم اس کا فائدہ مصر کو یہ ہوا کہ سوئز نہر سات سال کی بندش کے بعد ایک دفعہ پھر کھل گئی تھی اور قومی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ اُن کو واپس مل گیا تھا۔ مصری اسے اپنی ایک بہت بڑی کامیابی تصور کرتے تھے۔ نہر کی صفائی کے بعد اب ایک بار پھر بڑے بڑے جہاز اور تیل کے ٹینکر اس میں سے گزرنے لگے تھے، ہفتوں کا سفر دنوں میں طے ہونے لگا، اور یوں د نیا نے بھی سکھ کا سانس لیا۔
مصری اپنی اس ادھوری فتح کو لے کر بھی بڑے سر شار تھے اور یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قاہرہ بلکہ سارے مصر میں جگہ جگہ ریسٹورنٹ اور دُکانوں کے نام اس یوم فتح یعنی 6 اکتوبرکے حوالے سے رکھے ہوئے ہیں، مثلاً 6 اکتوبر ریسٹورنٹ یا 6 اکتوبر سکول۔
جیساکہ پہلے لکھا کہ شہدا ء چوک اُس وقت تک کوئی ایسی قابل دید جگہ نہ تھی تاہم شہر کے کاروباری مرکز، بڑے ہوٹلوں اور دریائے نیل کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ کافی جانا پہچانا اور اہم چوک تھا۔ یہ شارع تحریر پر واقع تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام آہستہ آہستہ بدل کر تحریر سکوائر ہوگیا تھا جس نے بعدازاں حالیہ سالوں میں صدر حسنی مبارک کے خلاف اٹھنے والے ایک شاندار انقلاب کے حوالے سے بہت مقبولیت حاصل کی۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے آکر کئی روز تک دھرنا دیا اور مظاہرین کی پولیس اور فوج کے ساتھ کئی جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں کئی لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے اور پھر یہ صحیح معنوں میں شہداء چوک بن گیا جہاں حقیقتاً بہت ساری شہادتیں ہوئیں۔
عشاء سے ذرا پہلے ہم ہوٹل واپس پہنچ گئے۔ عبدو کے ساتھ میرا آج آخری دن تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس کا ساتھ چھوٹ جانے والا تھا کیونکہ مجھے بھی اعلیٰ صبح الأقصر کیلئے پرواز بھرنا تھی۔ میں نے اسے اپنے ساتھ ہی کھانے پر مدعو کیا، اس کا شکریہ ادا کیا، اس کی طے شدہ فیس ادا کی اور ایک اچھا وقت گزارنے میں مدد دینے پر اس کو معقول بخشش دے کر رخصت کیا۔ وہ بہت احسان مند نظر آ رہا تھا اور بار بار مجھے کہہ رہا تھا کہ اگلی بار جب میں قاہرہ آؤں تو اسے ضرور اطلاع دوں وہ آ جائے گا۔ ہم دونوں ہی اس وقت اداس ہوگئے تھے میں اس کو دروازے تک چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا آیا اور کوئی دو گھنٹے تک یونہی ساکت پڑا چھت کو گھورتا رہا۔ پھر میں نے اپنا مختصر سا سامان سمیٹا اور بیگ میں رکھ لیا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں