فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل شریف چودھری کی دو ٹوک گفتگو،بھارت اور افغانستان کو آگاہ کر دیا!
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے واشگاف الفاظ میں وفاقی حکومت میں جاری قیاس آرائیاں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں اگر پاک فوج امن دستوں کا حصہ بنے گی تو اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔انہوں نے واضح کیا کہ پاک فوج سیاست میں الجھنا نہیں چاہتی انہوں نے کہا کہ سیاست کو فوج سے دور ہی رکھا جائے تو بہتر ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے حوالے سے پاک فوج کی پسند یا ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ پاک فوج کا ان سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا جبکہ کے پی کے میں گورنر راج کے حوالے سے بھی انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کوئی فیصلہ کرنا ہے تو وہ حکومت کرے گی تاہم انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں افغانستان کو متنبہ کیا کہ اگر افغانستان سے دراندازی جاری رہی تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ بہتر ہے کہ معاملات بات چیت سے حل ہو جائیں وگرنہ مسئلے کے حل کے لئے دیگر آپشنز کو بروئے کار لایا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ افغانستان میں نمائندہ حکومت نہیں ہے پاکستان افغانستان میں عوام کی نمائندہ حکومت کا حامی ہے افغان عبوری حکومت نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد یہ وعدہ کیا تھا کہ لویا جرگہ بُلا کر عوام کی نمائندہ حکومت قائم کی جائے گی جبکہ کے پی کے میں دہشت گردی کا تعلق ”نارکو اکانومی“ سے ہے جبکہ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد پکا جھوٹا ہے انہوں نے بتایا کہ خارجی عناصر اپنے ٹھکانے سرحدی علاقوں سے شہری علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں جبکہ سرحدی علاقوں میں مارے جانے والے دہشت گرد افغانی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پاک فوج کے پاس ٹھوس شواہد ہیں کہ افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان فوج کے سپاہی شامل ہیں جبکہ گذشتہ تین چار ماہ میں افغانستان سے آنے والے جن دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا ان میں سے60 فیصد افغان باشندے ہیں انہوں نے واضح کیا کہ حالیہ دوحہ مذاکرات میں اور پھر دوسرے مرحلہ استنبول میں صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر بات چیت ہوئی جو کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں تھیں۔
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے چشم کشا انکشافات میں بتایا کہ کے پی کے میں تقریباً12ہزار ایکڑ رقبہ پر پوست کاشت کی گئی ہے جبکہ افغان طالبان کے پی کے میں پوست کی کاشت کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں،بلکہ اسے تحفظ بھی دیتے ہیں کیونکہ کے پی کے سے یہ پوست افغانستان جاتی ہے۔افغانستان سے اس پوست سے آئس اور دیگر تباہ کن منشیات تیار ہوتی ہیں درحقیقت ترجمان پاک فوج نے بریفنگ کے ذریعے پوری قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے پاک افغان تنازعے کی اصل وجوہات بیان کیں اور بتایا کہ کس طرح افغان حکومت اپنے نام نہاد مفادات کے لئے پاکستان کی سلامتی سے کھلواڑ کر رہی ہے انہوں نے اس تنازعہ کا پورا پس منظر بیان کیا کہ کس طرح منشیات کے دھندے کی خاطر افغان طالبان پاکستانی طالبان کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں جبکہ افغانستان میں قائم عبوری حکومت افغان عوام کے تمام بڑے دیگر دھڑوں کو حکومت میں شامل کرنے سے گریزاں ہے۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ افغانستان کے اس رویہ کے باوجود پاکستان نے امریکی حملوں کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی امریکہ کو اِس ضمن میں سہولت فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ پاک فوج عوام اور میڈیا کو یک زبان ہو کر پاکستان دشمنوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اور انہیں منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔پاک فوج کے ترجمان نے اس موقع پر بھارت کے ممکنہ مذموم ارادوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ بھارت سمندر کی طرف سے ایک فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے کوئی کارروائی کرنا چاہتا ہے لیکن پاکستان کی مسلح افواج اس طرح کی کسی بھی قسم کی صورتحا سے نبٹنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں اور اس بار بھارت نے اگر کوئی غلطی کی تو اسے منہ کی کھانا پڑے گی اور پہلے کی نسبت زیادہ سخت ردعمل ملے گا۔اب بھارت نے اگر کوئی جرأت کی تو اسے سبق سکھایا جائے گا۔
پاک فوج کے ترجمان کی یہ بریفنگ غیر معمولی طور پر اہم تھی انہوں نے دونوں ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے مذموم ارادوں کے حوالے سے قوم کو باخبر کیا اور وہ تمام وجوہات زیر بحث لائے جن کی بدولت افغانستان کے ساتھ معاملات بگڑے اور اب سنبھلے تو ہیں لیکن پس پشت افغان ایجنڈے کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔افغانستان کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہئیں اور محسن کشی کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے بھارتی آلہ کار نہیں بننا چاہئے۔
ایک طرف تو جاری محاذ پر پاکستان کی مشرقی ومغربی سرحدوں پر سنگین نوعیت کے خطرات منڈلا رہے ہیں جبکہ داخلی محاذ پر 27ویں آئینی ترمیم کی تجویز سے سیاسی ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ اب تک اس مجوزہ آئینی ترمیم کے جو نکات سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ترمیم سے پاکستان کے آئین میں نمایاں تبدیلی ہو گی اور اس کے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی و سماجی مضمرات بھی ہوں گے۔ اٹھارویں ترمیم سے جو تمام خصوصی شعبے اور وسائل صوبوں کو منتقل ہو گئے تھے اور صوبوں میں استعداد کی کمی اور تجربہ کے فقدان کی بدولت بعض اہم حکومتی شعبے عمدہ کارکردگی نہیں دکھا سکے اب27یں آئینی ترمیم کے ذریعے گورننس میں بہتری کے لئے ایک جامع اصلاح کی کاوش نظر آ رہی ہے تاہم تاحال اس آئینی ترمیم کے حوالے سے خوب لے دے ہو رہی ہے اس ضمن میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے صدر زرداری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو سے حمایت مانگی ہے جبکہ پی پی پی نے نہایت عمدگی سے ایک حد تک بال جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی کورٹ میں بھی پھینکی ہے اور خود بھی حتمی فیصلے کے لئے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جبکہ صدر آصف علی زرداری بھی قطر کے دورے پر بیرون ملک ہیں حکومت چاہتی ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تحفظ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف اس ترمیم کی کھل کر مخالفت کر رہی ہے اس ترمیم کی منظوری کے لئے سیاسی ملاکھڑا ہو گا اور آئندہ آنے والے دن نہایت اہم ہیں اس آئینی ترمیم میں گورننس کے حوالے سے اور صوبوں اور وفاق کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے جو موضوعات ہیں ان پر اگر زیادہ سے زیادہ سیاسی اتفاق رائے ہو تو پائیدار حل ہو گا۔
٭٭٭٭٭
