بلاول بھٹو کی طرف سے 27ویں ترمیم کا انکشاف، پیپلزپارٹی کو آئینی تحفظ کے پیش نظر فیصلہ کرنا ہوگا!
کراچی.سیاسی ڈائری۔مبشر میر
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ آفتاب شعبان میرانی ایک مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ مرحوم کچھ دنوں سے علیل تھے اور حال ہی میں کراچی کے ایک نجی اسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے۔خاندانی ذرائع کے مطابق ان کی نمازِ جنازہ مسجد بیت السلام (ڈی ایچ اے کراچی) میں ادا کی گئی، جس کے بعد انہیں گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
مرحوم میرانی طویل سیاست سے وابستہ رہے اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔آفتاب شعبان میرانی 18ویں وزیراعلیٰ سندھ کے طور پر 1993 سے 1996 تک خدمات انجام دیتے رہے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں وہ پاکستان کے وزیرِ دفاع بھی رہے۔انہوں نے متعدد بار ضلع شکارپور سے قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر کامیابی حاصل کی، اور 2008، 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں بھی رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ 2023 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔سیاسی کیریئر کے دوران میرانی نے پارلیمانی امور میں نمایاں کردار ادا کیا اور اپنی معتدل سوچ اور جماعت سے وفاداری کے باعث وسیع احترام حاصل کیا۔
صدر آصف علی زرداری نے ان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”آفتاب شعبان میرانی ایک سینئر پارلیمنٹیرین اور پیپلز پارٹی کے مخلص رہنما تھے جنہوں نے جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔“وزیراعظم شہباز شریف نے بھی تعزیتی بیان میں کہا کہ مرحوم نے ملک و قوم کے لیے قیمتی خدمات انجام دیں، ”ان کی سیاسی اور عوامی خدمات کو ہمیشہ احترام سے یاد رکھا جائے گا۔“ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ان کے انتقال کو پیپلز پارٹی اور صوبے دونوں کے لیے ”بڑا نقصان“ قرار دیا، جبکہ صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ”مرحوم آفتاب شعبان میرانی پارٹی کے مخلص، وفادار اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار رہنما تھے۔“
آفتاب شعبان میرانی بے نظیر بھٹو کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان پر بے نظیر کو مکمل اعتماد تھا۔ دونوں کے درمیان سیاسی رفاقت کے ساتھ ذاتی احترام کا رشتہ بھی تھا، اور وہ پیپلز پارٹی کے ان چند رہنماؤں میں شامل تھے جنہیں بھٹو خاندان کے قریبی حلقے کا فرد سمجھا جاتا تھا۔
سندھ ہائیکورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوئی جس میں پولیس اہلکار غلام یاسین کو شہید قرار دینے کی درخواست زیرِ غور ہے۔سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ غلام یاسین کی وفات دورانِ ڈیوٹی نہیں بلکہ ٹریفک حادثے میں ہوئی، اس لیے اسے شہید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ان کے مطابق شہید ڈکلیریشن کمیٹی صرف اْن اہلکاروں کو شہید تسلیم کرتی ہے جو آپریشن، دہشتگردی کے حملے یا کارروائی کے دوران جاں بحق ہوں۔عدالت نے نشاندہی کی کہ سرکاری رپورٹ میں تضاد ہے — ایس ایس پی کی رپورٹ کے مطابق اہلکار کچے کے علاقے میں دورانِ ڈیوٹی بکتر بند گاڑی سے گر کر جاں بحق ہوا، جبکہ سرکاری وکیل اب اسے عام سڑک حادثہ قرار دے رہے ہیں۔عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو جواب الجواب کی نقول فراہم کرنے کی ہدایت دی اور سماعت 7 نومبر تک ملتوی کر دی۔یہ کیس اہلکار کے اہلِ خانہ کی درخواست پر چل رہا ہے، جنہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ غلام یاسین کے بچوں کو شہداء کوٹہ کے تحت پولیس فورس میں بھرتی کیا جائے۔
پاکستان کی سیاسی فضا ایک بار پھر آئینی تبدیلیوں کے گرد گھومنے لگی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے وفد کی جانب سے پیپلز پارٹی کی حمایت طلب کرنا ظاہر کرتا ہے کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم نہ صرف حکومتی ایجنڈا ہے بلکہ ایک ایسا اقدام ہے جو مستقبل کے وفاقی ڈھانچے، عدالتی نظام اور اختیارات کی تقسیم پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کے انکشافات کے مطابق اس ترمیم میں کئی ایسے نکات شامل ہیں جو آئین کے توازن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ان میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلے کا اختیار، این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم و آبادی کی منصوبہ بندی کے اختیارات کی وفاق کو واپسی اور الیکشن کمیشن کی تقرری پر تعطل ختم کرنے جیسے نکات شامل ہیں۔
یہ تمام تجاویز بظاہر ”انتظامی بہتری“ کے نام پر پیش کی جا رہی ہیں، لیکن ان کے مضمرات بہت گہرے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جو اختیارات ملے تھے، وہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے ایک تاریخی پیش رفت تھی۔ اگر اب وفاق دوبارہ انہی اختیارات کو واپس لینا چاہتا ہے تو یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو بڑھا سکتا ہے۔اسی طرح آئینی عدالت کے قیام یا ججوں کے تبادلے کے اختیارات کو ایگزیکٹو کے ہاتھ میں دینا عدلیہ کی آزادی پر سوالات کھڑے کر سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عدالتی ادارے پہلے ہی تقسیم کا شکار ہیں، ایسی ترامیم مزید بحران پیدا کر سکتی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے دانشمندی سے فوری حمایت یا مخالفت کے بجائے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلا کر اجتماعی فیصلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ طرزِ عمل ایک سیاسی بلوغت کی علامت ہے۔ کیونکہ اس نوعیت کی آئینی ترمیم کسی ایک جماعت یا وقتی سیاسی مصلحت کے تحت منظور نہیں کی جا سکتی۔
27ویں ترمیم پاکستان کے وفاقی نظام کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ اب یہ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی پر منحصر ہے کہ وہ محض سیاسی توازن کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے یا وفاق کی بقا اور صوبائی خودمختاری کے اصولوں کو اولیت دیتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پارلیمان آئین کو اپنی سیاست کا ہتھیار نہیں بلکہ جمہوریت کی امانت سمجھے۔
پاکستان میں بار بار آنے والے تباہ کن سیلاب صرف قدرتی آفات نہیں رہے، بلکہ یہ ہماری ریاستی، معاشرتی اور معاشی کمزوریوں کی نشاندہی بن چکے ہیں۔ ایسے میں جب اکثر ادارے محض بیانات تک محدود رہتے ہیں، بینک الفلاح کا عملی اور مسلسل کردار یقینا ایک امید کی کرن ہے۔
بینک الفلاح کے چیئرمین شیخ نہیان بن مبارک آل نہیان اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے مزید 50 لاکھ ڈالر (تقریباً 1.4 ارب روپے) کے عطیے کا اعلان نہ صرف فراخ دلی کی مثال ہے بلکہ یہ پاکستان کے عوام کے ساتھ دیرپا وابستگی کا ثبوت بھی ہے۔ اس سے قبل 2022 کے بعد سے بینک کی مجموعی امداد 1 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہے — ایک ایسی رقم جو کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (CSR) کے حقیقی تصور کی بہترین مثال ہے۔
یہ حقیقت بھی قابلِ توجہ ہے کہ بینک الفلاح نے اپنی توجہ محض نقد امداد تک محدود نہیں رکھی بلکہ متاثرہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی، روزگار کے مواقع، تعلیم، صحت اور ماحولیاتی موافق زراعت جیسے دیرپا منصوبوں پر بھی وسائل مختص کیے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادارہ وقتی ریلیف نہیں بلکہ پائیدار ترقی کا خواہاں ہے۔
پاکستان میں 2025 کے حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے، جن میں سے اکثر اب بھی بحالی کے منتظر ہیں۔ ایسے حالات میں بینک الفلاح جیسے اداروں کی شمولیت ریاستی ذمہ داریوں میں عملی معاونت فراہم کرتی ہے۔حکومت پاکستان کو بینک الفلاح کے اس ماڈل سے سیکھنا چاہیے — ادارے کی حساسیت، شفافیت، اور طویل المدتی منصوبہ بندی کو قومی پالیسی کا حصہ بنانا ناگزیر ہے۔ عوامی و نجی شعبے کی شراکت ہی پاکستان کو موسمیاتی تباہ کاریوں کے خلاف مضبوط بنا سکتی ہے۔
