ریاست اور عوام کے بیچ فاصلے کیوں ہیں؟
ریاست کا وقار افراد ہوتے ہیں، جب افراد اپنی ریاست پر یقین اور جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں تو پھر ریاست کی توقیر اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور جب افراد کا ریاست پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے تو پھر بہت کچھ بکھر جاتا ہے، پوری دنیا میں جو قومی تہوار یا قومی دن ہوتے ہیں انہیں عوام جوش و خروش سے مناتے ہیں وہاں انتظامیہ یا اسٹیبلشمنٹ کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا البتہ وہ بھی اپنے وطن کے باشندے ہوتے ہیں اور عوام کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں مگر وہاں کوئی حکومتی یا ریاستی مخصوص بیانیہ ہوتا ہے نہ انتظامیہ کو ان دنوں کے منانے کے لیے کوئی تگ و دو کرنا پڑتی ہے کیونکہ ریاست میں رہنے والا ہر بندہ جانتا ہے کہ کون سا دن ہمارا خاص دن ہے، جس طرح مسلم ممالک میں رمضان المبارک کا مہینہ ہوتا ہے، عیدیں ہوتی ہیں تو کیا وہاں کسی کو بتانا پڑتا ہے یا یہ دن حکومتی سرپرستی میں منائے جاتے ہیں؟ نہیں کیونکہ ہر مسلمان ان دنوں کے متعلق جانتا ہے اسے علم ہے کہ رمضان کے روزے ہمارے اوپر فرض کیے گئے ہیں اسی طرح عیدوں سمیت سارے مذہبی دنوں میں ہر مسلمان گھرانہ اہتمام کرتا ہے لیکن جب ریاستی خاص دنوں کی بات آتی ہے تو ریاست آگے ہو جاتی ہے اور عوام فارغ ہو جاتے ہیں، 14 اگست، 23 مارچ کی بڑی تقریبات اسلام آباد یا راولپنڈی میں منعقد ہوتی ہیں جس میں عوام کا داخلہ ناممکن ہوتا ہے، کیا 14اگست اور 23 مارچ حکومت کے دن ہیں؟
آزاد کشمیر کی حکومت کا قیام 24 اکتوبر 1947 والے دن عمل میں آیا اس دن کو کشمیری یوم تاسیس کے طور پر مناتے ہیں، اب میرے دوست بتائیں کہ آزاد کشمیر کے عوام میں سے کتنے لوگوں کو علم ہے کہ 24 اکتوبر ہمارا یوم تاسیس ہے؟ جن کو علم ہے وہ اس دن کیا اہتمام کرتے ہیں؟ کبھی کسی نے سنا ہو کہ کسی جگہ کوئی عوامی اجتماع ہوا ہو؟ نہیں نا؟ اسی طرح 27 اکتوبر کو کشمیری سیاہ دن سمجھتے ہیں یہ کتنے لوگوں کو پتا ہے اور کتنے عوامی احتجاج ہوتے ہیں؟ 5 فروری کا دن بینظیر بھٹو کی حکومت میں کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی کا دن مقرر کیا گیا تھا، پاکستان اور آزاد کشمیر میں کتنے لوگ اس دن کا اہتمام کرتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ حالانکہ اس دن سرکاری چھٹی بھی ہوتی ہے مگر عوامی سطح پر کہیں بھی کوئی تقریب منعقد نہیں ہوتی کیوں؟ کیونکہ ان دنوں پر بھی حکومت یا ریاست نے قبضہ کیا ہوا ہے اور حکومت یا ریاست عوام کو کسی بھی جگہ ساتھ لے کر نہیں چلتیں، کیوں؟ کیونکہ ریاست سمجھتی ہے کہ عوام رعایا ہیں، عوام کا نام صرف ریاست یا حکومت استعمال کر سکتی ہے، جیسے یہ کہ جو حکومت یا ریاست چاہتی ہے کہا جاتا ہے کہ یہ عوام چاہتے ہیں، عوام متحد ہیں، عوام ہماری پشت پر کھڑے ہیں، عوام نے ہمارے مخالفین کو مسترد کر دیا ہے؟ عوام فلاں کے ساتھ کھڑے ہیں وغیرہ وغیرہ، لیکن آج تک کسی نے عوام سے پوچھنے کی زحمت کی کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ضلعی سطح پر غیر منطقی اور غیر ضروری انتظامیہ مسلط کی جاتی ہے جو ضلع کے تمام فیصلے کرتی ہے اور اس انتظامیہ کے کسی بھی اجلاس میں عوام کی نمائندگی نہیں ہوتی، البتہ انتظامیہ نے چند ایک افراد اپنی تعریف کے لیے رکھے ہوتے ہیں جن کو مخصوص دنوں کی تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے اور ان سے تقاریر کی صورت میں اپنی اور ریاست کے کرتا دھرتاؤں کی مداح سرائی کروا لی جاتی ہے، اب تو حکومت بنانے سے تاجر تنظیموں تک ہر جگہ قیادت کا انتخاب بھی ریاست یا انتظامیہ کرتی ہے، عوام کی رائے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی، ہمارے ملک میں جتنی بھی نجی، سماجی اور مذہبی تنظیمیں ہیں ان کے اوپر بھی سب غیر منتخب قیادت ہوتی ہے۔
اس طرح ہم نے ملک کو دو یا کئی طبقات میں تقسیم کر دیا ہوا ہے اور ان طبقات میں سب سے بڑا طبقہ عوام ہیں جو 90 فیصد ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے البتہ ان میں کسی کے پاس مال ہے تو وہ کسی بڑے کی شفقت خرید سکتا ہے، کسی افسر کے ساتھ مل اور بیٹھ سکتا ہے، لیکن اب دنیا چونکہ گول گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے اور سوشل میڈیا نے معلومات کا طوفان برپا کر دیا ہے اب عوام یا فرد کو زیادہ دیر تک بے وقوف بنایا جا سکتا ہے نہ اندھیروں میں رکھا جا سکے گا، جوں جوں لوگوں کو پتا چلے گا کہ 5فیصد طبقہ ہمارا حق کھا رہا ہے،کہیں صوبائیت کا مرض ہے تو کہیں مذہبی فرقے کی بیماری ہے اور کہیں لوگ سیاستدانوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں مگر جلد وہ وقت آنے والا ہے جب عام آدمی سمجھ جائے گا کہ سب ہمارا استحصال کرنے والے ہیں پھر عوام متحد ہو کر کھڑے ہوں گے جس کی ایک جھلک آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی صورت میں نظر آئی ہے، اس لیے سیاست کو چاہیے کہ اب اپنی روش بدلے اور عوام کو ساتھ لے کر چلے۔
