مجھے دیکھ کر وہ آنکھ مار کر مسکرایا اور کہا کہ”بھائی اپنا تو یہی سٹائل ہے جب بھی کھیلو تو کھل کر اور مکمل کھیلو“،پھر یکدم ہر طرف ایک رام دہائی مچ گئی
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:300
ابھی میں حیران و پریشان عالمِ استعجاب میں ہی تھا کہ ٹم وارنر مجھ سے معافی چاہ کر ہال ہی میں بنے ہوئے ایک بغلی کیبن میں چلا گیا۔ اور کچھ دیر بعد جب وہ دوبارہ نمودار ہوا تو اس نے باقاعدہ برٹش ریلوے کے ڈرائیور کی وردی پہنی ہوئی تھی اور اس پر سیاہ پی کیپ بھی جما رکھی تھی جو اس کے سنہری بالوں پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
مجھے دیکھ کر وہ آنکھ مار کر مسکرایا اور کہا کہ”بھائی اپنا تو یہی سٹائل ہے کہ جب بھی کھیلو تو پھر کھل کر اور مکمل کھیلو“۔ اس نے آتے ہی کونے میں دیوار پر لگا ہوا ایک برقی سوئچ دبایا اور کمرے میں چار سْو روشنی پھیل گئی اور پھر یکدم ہر طرف ایک رام دہائی مچ گئی۔ ساکت کھڑے ہوئے تمام سٹیم اور ڈیزل لوکوموٹیو انجن انگڑائیاں لے کر یکدم بیدار ہوئے اور چیختے چنگھاڑتے ہوئے حرکت میں آئے اور اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھائے پہلے سے مقرر کردہ راستوں پر بھاگتے پھرے۔
کچھ تو مال گاڑیوں کے ڈبے لے کر ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے۔یہاں خود بخود ہی سگنل ڈاؤن ہو رہے تھے، پھر آپ ہی پٹریاں بدلتی تھیں اور گاڑیاں گھنٹیاں بجاتے ہوئے مختلف اسٹیشنوں میں داخل ہوتیں یا شنٹنگ یارڈ میں آن کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ کچھ انجن مال گاڑیوں کو کھینچتے ہوئے گوداموں میں داخل ہو جاتے، جہاں چھوٹی چھوٹی کرینوں کی مدد سے ان پر سے ”سامان“ اتارا جاتا اور پھر وہ خالی ویگنیں لے کر آگے بڑھ جاتے تھے۔
مسافر گاڑیاں اسٹیشن کی عمارت کے سامنے رکتی، سگنل اپ ڈاؤن ہوتے، قریب ہی بنے ہوئے لیول کراسنگ کا پھاٹک بند ہوتا اور گاڑی آگے بڑھ جاتی، غرض ریلوے کا ایسا کونسا ڈیپارٹمنٹ تھا جو اس وقت وہاں مصروفِ عمل نہیں تھا۔ بھاپ کے انجنوں کی سیٹیاں، ڈیزل لوکوموٹیو کے ہارن، اور گڑگڑاہٹ کی آوازیں بھی جا بجا لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے سپیکروں سے برآمد ہوتی تھیں اور جب وہ اس وسیع ہال میں گونجتی تھیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم سچ مچ کسی مصروف اسٹیشن پر کھڑے ہیں۔ حیرانی کی انتہا تھی کہ اسٹیشن کے ٹاور میں لگا ہوا گھنٹہ گھربھی صحیح وقت بتا رہا تھا۔
پٹریوں کیساتھ ساتھ اس نے بے شمار چھوٹے بڑے درخت اور گھاس لگا رکھا تھا۔ میں اس میز کے چاروں طرف بھاگا پھر رہا تھا اور یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کہیں کسی چیز کی کوئی کمی تو نہیں رہ گئی، مگر ہر شے اتنی مہارت اور نفاست سے اپنی اپنی جگہ بنائی گئی تھی کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ کیونکہ یہاں ہر قسم کی باریکیوں کا خیال رکھا گیا تھا۔
اسی دوران مصنوعی رات ہو گئی اور ملگجا سا اندھیرا پھیل گیا، اور پھر خود بخود ہر طرف روشنیاں جگمگا اٹھیں، اسٹیشن کی عمارتیں، گودام، انجنوں کی ہیڈ لائٹیں، سگنلوں میں بتیاں اور بوگیوں کے اندر ننھی منی روشنیاں جگنوؤں کی طرح جگمگانے لگیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
