دیوانِ خواجہ غلام فریدؒ کے مابعد الطبیعاتی پہلو (5)
خواجہ فرید اور اقبال
ڈاکٹر شہزاد صاحب نے بندے اور خدا یعنی عبد و معبود کے درمیان جو فاصلہ اور جو بُعدالقطبین (Polarity) ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ”اقبال اپنے مذہبی مابعد اطبیعاتی افکار کی اساس مولانا جلال الدین رومی پر رکھتے ہیں ،جن کو وہ اپنا روحانی مرشد مانتے ہیں اور اس کا ببانگِ دہل اقرار کرتے ہیں:
پیرِ رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم، جلوہ ہا تعمیر کرد
(مرشدِ رومی نے میری مٹی کو سونا بنا دیا ہے اور میرے گردوغبار سے کئی جلوے تعمیر کردیئے ہیں)
اس کے بعد وہ خواجہ غلام فرید کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”دوسری طرف خواجہ غلام فرید، اسلام کے روائتی مابعد الطبیعاتی افکارو نظریات سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور ان مابعد الطبیعاتی اور روائتی حقائق کو بیان فرماتے ہیں، جو بہت سے اکابر صوفیا نے اختیار کئے،مثلاً بایزید بسطامی، منصور حلاج، ابن عربی اور ان کے اپنے روحانی مرشد اور برادرِ بزرگ خواجہ غلام فخر الدین (تاریخ وفات 1871ء)۔
آگے چل کرڈاکٹر شہزاداپنی اس تحریر کی وضاحت یوں کرتے ہیں:”اقبال اور خواجہ غلام فرید دونوں، عبد و معبود کی تقطیب کے قائل ہیں،لیکن ان میں ایک بڑا اختلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ اقبال عبد و معبود کے درمیان اس دوری (Polarity)کو مطلق، حتمی اور صریح گردانتے ہیں،جبکہ خواجہ غلام فرید اسے معروضی، عارضی اور مفروضی سمجھتے ہیں۔خواجہ کا عقیدہ ہے کہ بندہ آخر کار اپنے رب سے واصل ہو جاتا ہے اور اس وصل میں اس کے نیک اعمال و افکار اس کا سبب بنتے ہیں۔یہی وہ فرق ہے جو ”مذہبی مابعد الطبیعات“ اور”روائتی مابعد الطبیعات“ میں ہے۔اول الذکر (یعنی اقبال) کی مذہبی مابعدالطبیعات، انفرادیت، محدودیت اور ثنویت کہلاتی ہے،جبکہ آخر الذکر(یعنی خواجہ غلام فرید) کی روائتی مابعد الطبیعات، آفاقیت، لامحدودیت اور غیر ثنویت سے عبارت ہے“۔
اپنے استدلال کی تائید میں مزید آگے چل کر ڈاکٹر صاحب عصرِ حاضر کے مختلف دانشوروں اور فلاسفہ کی تحریروں سے حوالہ جات دیتے ہیں،جن میں Schuon، Guenon، Izutsu،Lings،Marlin،Chittick ،SmithاورStoddartوغیرہ شامل ہیں۔
ہم مغرب کے ان فلاسفروں اور دانشوروں کے مبلغ علم و فضل کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے اور نہ ہی اس بات پراصرار کریں گے کہ ”اینٹی اقبال“ اور”پروہمہ اوست“ تحریکوں کے ان مغربی علمبرداروں کی ان دبی ہوئی اور پوشیدہ تمناﺅں سے نقاب اٹھایا جائے جو مسلم امہ کو ایک بار پھر اسی ”افیون خوری“ اور نظامِ خانقاہی کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں، جس کی طرف اقبال نے اپنی پہلی شعری تصنیف”اسرارِ خودی“ میں اشارہ کیا تھا اور پھر اپنی ساری زندگی مسلم امہ کو”گوسفندی روائت“ سے نکال کر”شیری روائت“ کی راہ پر ڈالنے میں صرف کردی....اس موضوع پر ان کے کئی اشعار کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔مثلاً:
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو توکر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ نظامِ خانقاہی
....................
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو
....................
کئے ہیں فاش رموزِ قلندری میں نے
کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
....................
ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ
....................
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اس شعلہءنم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا
....................
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
................................
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جن خانقاہوں اور خانقاہی نظام کے خلاف اقبال نے آواز اٹھائی،وہ اور تھا اور ”اسلامی تصوف“ اور خدائے واحد کا پرچار کرنے والے بزرگ اس زمرے میں نہیں آتے۔اگر طولِ کلام کا اندیشہ نہ ہو تو کلام اقبال (اردو اور فارسی) سے درجنوں ایسے اشعار کا حوالہ دیا جا سکتاہے،جن میں اقبال نے خاص طورپر ایرانی صوفیوں اور شاعروں کے ان مسالک پر شدید تنقید کی ہے جو زوال ِ امت کا باعث بنے۔اس سلسلے میں ان کے بعض خطوط بہت واضح طور پر ان کے مسلک کی وضاحت کرتے ہیں۔مثلاً10جولائی 1916ءکو سراج الدین پال کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :
”کسی قوم کے ضابطہ ء حیات و مذہب میں کوئی پوشیدہ معانی تلاش کرنا،ان ضوابط کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔یہ وہ طریقہ ہے جو گوسفندی (Sheep-Like) فطرت کے حامل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ فارسی زبان کے اکثر شعرا اپنے خلقی (Inherent) رجحانات و میلانات کی وجہ سے وحدتِ وجود کے عقیدے کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ان کا یہ رجحان، ایران میں اسلام کی آمد سے پہلے بھی موجود تھا، لیکن جب ایرانیوں نے اسلام قبول کیا تو یہ رجحان کسی قدر دب گیا اور پس منظر میں چلا گیا،مگر ایران کی خوابیدہ اور فطری جبلت اس بات کی مقتضی تھی کہ وہ بہت جلد پہلے سے بھی زیادہ زور و شور کے ساتھ سر اٹھائے گی اور ایسا ہی ہوا۔بہت جلد عقیدئہ وحدت الوجود کا لٹریچر اسلام میں در آیا۔ایرانی شعراءنے اسلامی عقائد و شعائر کو کسی نہ کسی طرح توڑ مروڑ کر نیچا دکھانے کی کوششیں شروع کردیں۔ان کوششوں کا اندازِ بیان البتہ خاصا پرکشش نظر آنے اور دل لبھانے لگا۔انہوں نے اسلام کی ہر اچھی چیز میں کیڑے نکالنے شروع کردیئے۔ اگر اسلام نے مفلسی کو ایک برائی کے طور پر پیش کیا تو حکیم سنائی نے اسے ایک نعمت قرار دیا اور اس کی تعریف و توصیف شروع کردی۔اسلام میں خدا کی راہ میں جدوجہد(جہاد) کو ایک لازمہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن فارسی شعراءنے اس جدوجہد کو نئے معانی پہنائے اور تبلیغ شروع کردی کہ کسی خانقاہ میں بیٹھ کر استغراق کرنا، راہِ خدامیں سب سے بڑا جہاد ہے“۔
ایران اور عراق کی سرحدیں ملتی تھیں۔بہت سے عراقی فلاسفہ، شعرا اور دانشور ایران آئے اور ایرانی فکر کو وحدت الوجود کے نئے نئے گوشوں اور اس عقیدے کی عجیب و غریب تاویلیوں سے ”مالامال“ کرنے لگے۔یوں صوفیا نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایرانی اور یونانی افکار و عقائد اسلام میں داخل کردیئے۔صوفی ازم پر شعر کہنے والا سب سے پہلا ”باقاعدہ“ شاعر عراقی تھا،جس کا ہم نے قبل ازیں بھی حوالہ دیا ہے اور جس نے ابن عربی کے افکاروعقائد کو اشعار کی صورت میں ڈھالا اور اس سلسلے میں سب سے آخری شاعر خواجہ حافظ تھے۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ تصوف کی ساری شاعری اسلام کے دورِ زوال و انحطاط میں پروان چڑھی اور جوان ہوئی۔جب تیرہویں صدی عیسویںمیں منگولوں نے ایران اور عراق کو تاراج کردیا تو یہاں کے شعراء،فقہا اور صوفیا نے انفعالی فکر کو اپنا لیا اور اس کے گُن گانے لگے۔یہ وہ کیفیت ہے جس میں کمزوری اور ضعف کو حسن اور خوبصورتی سمجھ لیا جاتا ہے۔اس دور کے ایرانی اور عراقی مسلم دانشوروں، شاعروں اور صوفیوں نے تاتاریوں سے شکست فاش کھانے کے بعد عافیت اسی میں جانی کہ ناخوب کو خوب سمجھ لیا۔
جب ان تاتاریوں نے اسلام قبول کرلیا اور ان کی اولادوں نے کوہ ہندوکش عبور کرکے ہندوستان پر حملے شروع کئے تو اس تاریخ سے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ہندوستان میں 1193ءمیں قطب الدین ایبک نے پہلے غیر عرب مسلمان حکمران کے طور پر اس عظیم الشان دور حکومت کا آغاز کیا جو 650برس تک مسلسل قائم رہا۔اس دور میں ایرانی شعراءاور دانشوروں نے بھی دربارِمغلیہ کا رخ کیا۔مغلوں سے پہلے سلاطینِ دہلی اور ان سے بھی پہلے غزنویوں اور غوریوں کے ادوار میں ایرانی شعرا اور صوفیا نے اپنے انفعالی عقائد کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔سلاطین دہلی اور مغلوں کی زبان فارسی تھی، چنانچہ ہند کی مساجد اور مدارس میں ان افکار کی تعلیم و تدریس عام ہوگئی جو پہلے فارس(ایران) میں قبول عام پاکر اہلِ فارس کی اخلاقیات کو متاثر کرچکے تھے۔
پاکستان بن جانے کے بعد (اور شائد آج بھی) ہمارے مدارس میں شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان پڑھائی جاتی ہیں۔گلستانِ سعدی کے آٹھ ابواب ہیں اور ایک ایک باب میں کئی کئی حکایات ہیں۔ان میں جو ”پندِسودمند“ تحریر ہیں، ان کا اندازہ ان ابواب کے عنوانات سے لگایا جا سکتا ہے جو اس طرح ہیں۔(1)در سیرتِ پادشاہاں(2)درفضیلتِ قناعت(3)درعشق و جوانی(4) درتاثیرِ تربیت (5) دراخلاقِ درویشان(6)درفوائدِ خاموشی (7)درضعف و پیری اور (8)درآدابِ صحبت۔
اسی طرح بوستانِ سعدی کے ابواب یہ ہیں(1) در عدل و تدبیر(2)در احسان(3)درعشق و مستی(4)در تواضع(5) در رضا(6) در قناعت(7)در تربیت (8)در شکر و عافیت(9)در توبہ و ثواب (10)در مناجات
ایک ملاقات میں، میں نے ایک ایرانی سکالر سے یہ سوال کیا کہ فارسی زبان کے کلاسیکل شعراءاور نثرنگاروں نے انفعالی موضوعات مثلاً صبر، شکر،قناعت، تسلیم و رضا، درویشی، تواضع، احسان اور استغراق وغیرہ پر ہی اتنا زور کیوں دیا ہے؟ کیا اسلامی اخلاقیات کے موضوعات یہی ہیں؟انہوں نے مجھے ایک مختصر جواب دے کر خاموش کرا دیا۔جواب یہ تھا:”اگر برصغیر ہندو پاک پربھی کوئی چنگیز یا ہلاکو حملہ آور ہوتا اور ایران بچ جاتاتو آج اگر میں یہی سوال آپ سے پوچھتا تو آپ کیا جواب دیتے؟“میں اس کا جواب دے سکتا تھا ،مگر چونکہ وہ سکالر تہران سے ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد کے ساتھ آئے تھے اور میںپاکستان کی مختلف عسکری تنصیبات کی وزٹ میں بطور انٹر پریٹر اور کنڈکٹنگ آفیسر،ان کے ہمراہ تھا، اس لئے میں نے پروٹوکول کے تقاضوں کے مدِنظر تاتاری حملوں سے پہلے کے تین چار صدیوں کے ایرانی لٹریچر پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان پر کسی منگول نے تو حملہ نہ کیا ،مگر تاتاریوں کے مسلم جانشینوں نے اپنے ہی ہم مذہبوں کی سلطنتیں برباد کرکے رکھ دیں۔دلی کئی بار اجڑی اور آباد ہوئی۔تیمور اور نادر کے قتل عام، تاریخ کا حصہ ہیں،لیکن اس دور کے شعراءنے ان حملوں پر جوردِعمل ظاہر کیا اوران کا جو سبب نظم فرمایا،ذرادیکھئے وہ کتنا دلچسپ اور عبرت انگیز ہے:
شامتِ اعمالِ ماصورتِ نادر گرفت
(جاری ہے)