کراچی سٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن؟

کراچی سٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سندھ کے وزیر خزانہ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے سٹیل ملز خریدنے کی پیشکش نہیں کی، وفاق فیصلہ مسلط کر رہا ہے،سندھ کے محکموں کی طرف سے ایسی تجویز نہیں بھیجی گئی، جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سٹیل ملز سندھ حکومت کو دینا چاہتی ہے، تو مذاکرات کرے۔ صوبائی حکومت سٹیل ملز کی پیشکش کا جائزہ لے گی۔ کراچی کی سٹیل مل کو دس سال قبل بھی پرائیویٹ سیکٹر کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اگر سپریم کورٹ بروقت مداخلت نہ کرتی، تو اس وقت کی حکومت نے اس بڑے صنعتی منصوبے سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ سٹیل مل ایک دیو ہیکل پراجیکٹ ہے اور ہزاروں ملازمین اس میں کام کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جب سے یہ سٹیل مل قائم ہوئی ہے۔یہ سرکاری خزانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے خزانے پر بوجھ ہی ثابت ہوئی ہے،حالانکہ اس کے اندر اتنا پوٹینشل موجود تھا کہ یہ منافع کماتی اور خزانے پر بوجھ نہ بنتی، لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ یہ شروع سے ہی بدانتظامی اور کرپشن کے دو پاٹوں میں کچلی جاتی رہی، بہت تھوڑے عرصے میں اس نے کوئی ایسی کارکردگی دکھائی جب امید بندھی کہ یہ اب چل پڑے گی،لیکن پہیہ پھر اُلٹا گھوم گیا۔ سٹیل ملز میں ایک طرف تو سفارش اور رشوت کی بنیاد پر ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کر لئے گئے، جو کام کم کرتے تھے اور اپنی سہولتوں پر نظر زیادہ رکھتے تھے، اِسی طرح کہا جاتا ہے کہ بہت بڑی تعداد گھوسٹ ملازمین کی بھی تھی، جن کی لگی بندھی تنخواہیں وصول کر لی جاتی تھیں،ان گھوسٹ ملازمین کی حاضری خود کار طریقے سے لگتی ہے اور اسی طرح ان کی تنخواہیں ادا ہو جاتی ہیںیہ لوگ کون تھے؟ اور کون ہیں؟ اس کا شافی جواب آج تک نہیں ملا۔ ایسے میں ظاہر ہے ملز سے منافع کی کیا توقع رکھی جا سکتی تھی اور اب تو کئی سال سے ملازمین کی تنخواہیں بھی سرکاری خزانے سے ادا کی جاتی ہیں۔ ’’بیل آؤٹ‘‘ پیکیج کے نام پر ہر چند ماہ بعد اربوں روپے سٹیل ملز کو دئے جاتے ہیں، لیکن یہ ’’بیل آؤٹ‘‘ ہی نہیں ہو پاتی اور’’ ہل من مزید‘‘ کی صدائیں آتی رہتی ہیں۔ اب اگر اسے فروخت کرنا ہی ٹھہرا تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ اس ملز کے اثاثوں اور زمین کی حقیقی مالیت کا صحیح حساب لگایا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی میں جتنے میں ملز کو فروخت کیا جا رہا تھا اس سے کئی سو گنا زیادہ مالیت تو اس کی قیمتی زمین کی تھی،جو کھربوں روپے میں فروخت ہو سکتی ہے، جن لوگوں کی اس کی خریداری پر نظر ہے، وہ بھی غالباً ملز چلانے سے زیادہ اس کی زمین کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سندھ حکومت اس کی خریداری میں دلچسپی نہیں رکھتی تو اسے زبردستی اس کے سر مڑھنے کی ضرورت نہیں، جس ملز کو وفاقی حکومت نہیں چلا سکی۔ سندھ حکومت کے پاس جادو کی کون سی چھڑی ہے جس سے وہ ملز کو چلا لے گی۔ ویسے جب تک ہزاروں گھوسٹ ملازمین سے چھٹکارا نہیں پایا جاتا اور صرف اتنے ملازم نہیں رکھے جاتے، جو پیداوار میں حصہ ڈالیں اور مفت کی تنخواہیں نہ لیں اُس وقت تک ملز کو منافع بخش بنانا مشکل ہے۔ سندھ حکومت اگر اسے لے بھی لے تو وہ بھی اگلے مرحلے پر اسے فروخت کرنے کا سوچے گی اور ممکن ہے یہ کوڑیوں کے مول ہی بِک پائے، تلاش کیا جائے تو ایسے خریدار ضرور مل سکتے ہیں، جو اس کی صحیح قیمت دینے پر تیار ہوں، اِس لئے اس کا سودا سوچ سمجھ کر ہونا چاہئے اور عجلت میں کوئی غیر دانشمندانہ فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ *

مزید :

اداریہ -