ازلی دشمن کے ابدی دوست

جہاں عالمی استعمار وطن عزیز پر جارحیت کے لئے صف آراء ہے، وہیں ازلی دشمن بھارت کے ابدی دوست تجارتی شہ رگ، چین پاکستان اقتصادی راہداری ’’سی پیک‘‘ کو متنازع بنانے اور سبوتاژ کرنے کے لئے ہمہ تن سرگرم ہیں۔یہ ابدی دوست کبھی اے این پی، کبھی ایم کیو ایم تو کبھی سپانسرڈ طالبان کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم اور سپانسرڈ طالبان کا پاکستان مخالف ایجنڈاتو کھل کر سامنے آچکا ہے، لیکن سی پیک کے خلاف احتجاج سے آہستہ آہستہ اے این پی کی بھونڈی حرکتیں بھی عیاں ہونے لگی ہیں۔ جس طرح 1980ء کی دہائی میں پاکستان کی ترقی اور عوامی خوشحالی کے منصوبے کالا باغ ڈیم پر سیاست کی آگ بھڑکاکر اسے متنازع بنایا گیاتھا، عین اسی طرح اب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے موجودہ سربراہ اسفند یار ولی اور ان کے حواری بے تکے اعتراضات لگا کرپاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جب 1984ء میں دریائے سندھ پر 3600میگا واٹ بجلی کے حامل کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کیا گیا تو بھارت پاکستان کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کو ہضم نہ کر سکا اور پاکستان میں موجود اپنے حواریوں کوہلہ شیری دی ۔ہندوستان نے قوم پرستوں کو خفیہ فنڈز فراہم کر کے کالا باغ ڈیم کو سیاست کی نذر کردیا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر چودھری جعفر اقبال نے ایوان بالا میں بتایاتھا کہ بھارت ، قوم پرستوں کو کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر سالانہ 12ارب روپے فراہم کرتا ہے۔اگر ڈیم بن جاتا تو کالا باغ اب سرسبز ہو چکا ہوتا، فصلیں لہلہاتیں اور بجلی کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہو چکا ہوتا۔ کارخانے چلتے ، لوگوں کو روزگار ملتا، عوام خوشحال ہوتے اور پاکستان ترقی کرتا۔۔۔ لیکن افسوس کہ بھارت او ر اس کے پاکستانی دوستوں کی ریشہ دوانیوں سے یہ منصوبہ ایک خواب بن کر رہ گیااور کالا باغ ڈیم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے متنازع بنا دیا گیا۔ کالاباغ ڈیم پر زہریلی سیاست کا خمیازہ پاکستان کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔
51ارب ڈالر سے زائد کا چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بھی اس کے دشمنوں بھارت اور اس کے چہیتوں کے لئے زہر قاتل بن چکا ہے، اس لئے بھارت اس منصوبے کو متنازع اور ناکام بنانے کے لئیاپنے تئیں کوششیں کر رہا ہے ۔ کیا حسین اتفاق ہے کہ جہاں بھارت معاشی خواب کو تعبیر دیئے جانے سے پہلے اسے ناکام بنانے کی جستجو میں لگا ہے، وہیں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی اینڈ کمپنی نے سی پیک کے مغربی روٹ میں تبدیلی اورخیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں کے احساس محرومی کو جواز بنا کروفاقی حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو کالاباغ ڈیم کی طرح متنازع بنانے کی دھمکی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم سے زیادہ شدید تحریک چلائیں گے اورحکومت کا جینا حرام کر دیں گے۔ خیبر پختونخوا کے مسترد شدہ سیاستدانوں نے اس نازک وقت میں ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر کے محب وطن پختونوں کو بھارتی پروپیگنڈے میں الجھانے کی ناکام کوشش کی ہے، عوام سیاسی شعبدہ بازوں سے عاجز آچکے ہیں، انہیں کوئی پذیرائی نہیں ملے گی۔پہلے ایک جماعت نے دھرنوں کا ڈرامہ رچار کر چینی صدر کا دورۂ پاکستان ملتوی کرایا، اب دوسری جماعت راہداری روٹ کی تبدیلی سے متعلق غیر حقیقی خبریں پھیلا کر اسے متنازعہ بنا رہی ہے۔ اس کے برعکس وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کئی بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ سی پیک راہداری میں ایک انچ بھی تبدیلی نہیں ہو گی اور مغربی روٹ سب سے پہلے تعمیر کیا جائے گا، لیکن اے این پی آئے روزبے جا تحفظات کا اظہار کر کے سی پیک منصوبے کومتنازع بنانے کی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ اعتراضات دور کئے جانے اور یقین دہانیوں کے باوجودبھی اسفند یار ولی بھارتی ایجنڈے کو دوام بخش رہے ہیں۔
وزریراعظم کی سربراہی میں قائم سی پیک منصوبے پر11رکنی سٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس میں میاں نواز شریف نے تمام قوم پرست جماعتوں کو اس بات کی ضمانت دی کہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کو ترجیحی بنیادوں پر آئندہ اڑھائی سال میں مکمل کیا جائے گا اور 15جولائی 2018ء کو مغربی روٹ فنکشنل ہو جائے گا۔ موجودہ مالی سال میں مغربی روٹ کے لئے 40ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ، ضرورت پڑنے پر فنڈزبڑھادیئے جائیں گے۔ ایکسپریس وے کو 6رویہ کرنے کی گنجائش ہو گی ۔مغربی روٹ کوپہلے مرحلے میں 4رویہ، بعد میں 6رویہ کر دیا جائے گا اور اسے موٹر وے سے ملایا جائے گا ۔مغربی روٹ کے ارد گرد صنعتی پارکس وفاق اور صوبے مل کر بنائیں گے۔خیبر پختونخوا میں سی پیک کے تحت متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے، جن میں بجلی کے منصوبے، موٹر ویز، ریلوے لائنز کی بحالی و تعمیر، ڈرائی پورٹ، صنعتی زونوں کا قیام اور دیگر منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں سے خیبر پختون خوا کے پسماندہ علاقوں میں ترقی و خوشحالی آئے گی اور لوگوں کو بہتر معیار زندگی کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ سی پیک منصوبے سے صرف پاکستان کے ہی عوام نہیں، بلکہ پورے خطے کے لوگ مستفید ہوں گے۔علاوہ ازیں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ملک بھر میں3ارب 69کروڑ کی لاگت سے نئے ریلوے ٹریکس بچھائے جائیں گے۔
پلاننگ کمیشن کی دستاویزات کے مطابق سی پیک منصوبے کے تحت ایک ہزار 59 کلومیٹر حویلیاں، کاشی نیو ریلوے ٹریک، پشاور سے طورخم تک نئی ریلوے لائن کی تعمیر، حویلیاں ڈرائی پورٹ، کراچی سے کوٹری ڈبل لائن کی تعمیر،00 16 کلومیٹر کراچی سے پشاور تیز رفتار ریلوے لائن منصوبہ، کوئٹہ، 560کلومیٹر،ژوب،کوٹلہ جام نئی ریلوے لائن کی تعمیر ،633 کلومیٹر، کوئٹہ، تفتان لائن کی اپ گریڈیشن اور 1328 کلومیٹر گوادر، جیکب آباد تک نئی ریلوے لائن سمیت شامل ہیں۔سی پیک کے قلیل المدتی منصوبے 2017ء۔2018 ء جبکہ طویل المدتی منصوبے 2020ء سے 2030ء تک مکمل ہو جائیں گے۔ سی پیک منصوبے کے تحت ملک میں 10 ہزار 400 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے 14 منصوبے دسمبر 2018 ء تک مکمل کئے جائیں گے جس سے نہ صرف توانائی بحران پر قابو پا لیا جائے گا، بلکہ اضافی بجلی ہو گی۔
یہ امر حقیقت ہے کہ وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے کے لئے مخالفین کی ریشہ دوانیاں عروج پر ہیں اور دشمن نے راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے تیسری جنگ عظیم کا نقارہ بجا دیا ہے۔ اگر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی و دیگر رہنما واقعی محب وطن ہیں اور وطن عزیز کوترقی یافتہ اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تونفرت کے بیج بونا چھوڑدیں ، سی پیک کے خلاف احتجاجی سیاست ترک کردیں، اور بھارتی ہتھکنڈوں کے سدباب کے لئے حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ شانہ سے شانہ ملا کر کھڑے ہوں، اب سی پیک منصوبے کو بھارت اور اس کے حواریوں کی زہریلی سیاست کینذر نہیں ہونے دیں گے۔