عمران نے رشتہ نہیں مانگا۔ اس لئے رشتہ نہ دیں

عمران نے رشتہ نہیں مانگا۔ اس لئے رشتہ نہ دیں
 عمران نے رشتہ نہیں مانگا۔ اس لئے رشتہ نہ دیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ سوال تو مضحکہ خیز ہے کہ عمران خان نے ٹھیک اعلان کیا ہے ۔ یا غلط۔
یہ سوال بھی مضحکہ خیز ہے کہ عمران خان کو اتنی جلدی کیوں ہے .
یہ سوال بھی فضول ہے کہ عمران خان ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
لیکن ایک سوال ضرور ہے کہ کیا اس بار بھی عمران کو کوئی اشارہ ہے۔ یا وہ اپنے طور پر کر رہے ہیں۔
یہ بھی اہم ہے کہ اس بار عمران خان کی کامیابی کے کس قدر امکانات ہیں۔
عمران خان کے پاس اپنے حق میں بہت سے دلائل ہوں گے۔ ان کے پاس اپنا ایک گیم پلان ہے۔
تا ہم سیاست میں آپ سب کچھ کامیابی کے لئے نہیں کرتے۔ اپنے نظریہ اور اپنے اصولوں کی با لادستی کے لئے بھی سیاست کی جاتی ہے۔ اس لئے سیاسی جماعتیں ہر کام کامیابی یا ناکامی کو سامنے رکھ کر نہیں کرتی ہیں۔


عمران خان کے اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کے حوالے سے ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر یہ احتجاج کر رہے ہیں جب بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت شروع کی ہوئی ہے۔ روزانہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ جاری ہے۔ بیانات بھی جاری ہیں ۔ ایسے میں عمران خان کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے بھارت کو یہ تاثر ملے کہ پاکستان اندرونی طور پر تقسیم ہے۔


لیکن کوئی عمران خان کی بھی تو سنے۔ وہ بیچارہ جب بھی اسلام آباد کی طرف چڑھائی کرنے لگتا ہے کبھی کہہ دیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی نہ کی جائے۔ پھر کہہ دیا جاتا ہے وزیر اعظم بیمار ہیں ابھی کچھ نہ کریں۔ پھر کہ دیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ میں آئیں ۔ مسائل پارلیمنٹ میں حل ہونگے۔ ایسے میں کوئی عمران خان کو بتا ئے کہ وہ کونسا موسم ہے جب وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے اسلام آباد پر چڑھائی کر سکتے ہیں۔ کیا کوئی انہیں ایسے موسم کا بتا سکتا ہے۔؟


ویسے تو عمران خان نے وزیر اعظم کی کانفرنس میں شرکت نہ کر کے اپنے عزائم واضح کر دئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کو سمجھ نہ آئے۔ لیکن شیخ رشید کا یہ بیان صورتحال سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ عمران خان تو تحریک انصاف کا وفد وزیر اعظم کی پارلیمانی کانفرنس میں نہیں بھیجنا چاہتے تھے وہ تو شیخ رشید نے انہیں مجبور کیا۔ جب بات یہاں پہنچ جائے کہ فیصلے شیخ رشید کے مجبور کرنے پر ہونے لگیں تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ ایک طرف تو شیخ رشید نے عمران کو مجبور کیا تو دوسری طرف حکومت نے شیخ رشید ہی کونہیں بلایا گیا۔ پھر ایسا تو ہونا ہی تھا۔


مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے تو اس سے میاں نواز شریف کو کیا نقصان ہو گا؟ اگر عمران اور ان کی جماعت پارلیمنٹ نہیں آتی تو پارلیمنٹ کو بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے بھی عمران خان اور ان کی جماعت استعفوں کا ڈرامہ کھیل چکی ہے ۔ اب بائیکاٹ کا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نئی بوتل میں پرانی شراب ہے۔یہ نئے انداز میں پرانا داؤ ہے۔


اب سوال یہ بھی ہے کہ تیس اکتوبر کو کیا ہو گا۔ میں نے ایک دوست سے کہا کہ تیس ستمبر کے جلسہ نے عمران خان کے و لولے کو جوان کر دیا ہے۔ انہیں دوبارہ یہ یقین ہو گیا ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ اس لئے وہ اسلام آباد کو جام کرنے کا کہہ رہے ہیں کیونکہ رائے ونڈ کے جلسہ نے انہیں دوبارہ حوصلہ دے دیا ہے۔ لیکن میرے دوست کا کہنا ہے کہ عمران خان شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اس جلسہ کے لئے تحریک انصاف نے اپنے ہر ٹکٹ کے امیدوار کو ڈرایا تھا کہ اگر وہ بندے نہیں لائیں گے تو انہیں اگلا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی یقین دلا یا گیا تھا کہ اس کے بعد دوبارہ بندے لانے کے لئے نہیں کہا جائے گا۔ ایسے میں کیا عمران خان دوبارہ اپنی جماعت کو بندے لانے کے لئے مجبور کر سکتے ہیں ۔ نہیں نہ تو وہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ہونگے۔
اگر عمران خان اسلام آباد کو بند نہ کر سکے تو کیا ہو گا۔ وہی ہو گا جو دھرنوں کی نا کامی کے بعد ہو ا تھا۔ اب تو صرف حکومت سے ہی یہ اپیل کی جا سکتی ہے کہ اگر عمران خان اسلام آباد آجائیں تو انہیں کوئی محفوظ راستہ نہ دیا جائے۔ اپیل تو اپوزیشن کی باقی جماعتوں سے بھی ہے کہ وہ بھی اس دفعہ کسی محفوظ راستہ کے لئے حکومت کو مجبور نہ کریں۔


پیپلزپارٹی کو بھی فائدہ ہے۔ اگر عمران خان سیاسی طور پر کمزور ہونگے تو اس کا فائدہ تو پیپلز پارٹی کو ہی ہو گا۔ ویسے بھی اگر عمران خان نے کسی سے جب رشتہ نہیں مانگا تو باقی جماعتوں کو بن مانگے رشتہ دینے کی کیا ضرورت ہے۔


لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس سب کے باوجود اگر عمران خان کامیاب ہو گئے تو کیا ہو گا۔ ایک دفعہ دو سکھ آپس میں اپنے ملک کی ترقی کے حوالہ سے گفتگو کر رہے تھے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ یہ جرمنی اور جا پان نے کیسے ترقی کی تو دوسرے سکھ نے کہا کہ کہ پہلے جرمنی اور جا پان نے امریکہ سے جنگ کی وہ جنگ ہاری ۔ مکمل طور پر تباہ ہوئے اور پھر ترقی کی۔ تو پھر پہلے سکھ نے کہا کہ اس طرح تو ہمارے ملک کو بھی پہلے امریکہ سے جنگ کرنی چاہئے ۔ پھر جنگ ہارنی چاہئے ۔ پھر ہی ترقی ہو گی۔ لیکن پھر دوسرے سکھ نے کہا کہ اگر ہمارے ملک نے جنگ جیت لی تو ترقی کا کیا ہوگا۔ بس اگر عمران جیت گئے تو جمہوریت کا کیا ہو گا؟

مزید :

کالم -