میرے وطن کے سیاست دانو! احتیاط

میرے وطن کے سیاست دانو! احتیاط
 میرے وطن کے سیاست دانو! احتیاط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قومی اسمبلی نے الیکشن اصلاحات بل منظور کرکے اور صدر مملکت کی طرف سے اس بل کی منظوری کے بعد نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے سربراہ منتخب ہوگئے ہیں۔ اب قومی اسمبلی کے لئے آئینی طور پر نااہل قرار دیا گیا کوئی بھی شخص کسی بھی جماعت کا صدر بن سکتا ہے۔ کسی ایک فرد کی خاطر پارلیمنٹ کا قانون سازی کرنا یا پہلے سے موجود قانون میں ترمیم کرنے کا یہ عمل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا رہے گا۔

الیکشن اصلاحات بل کی منظوری کے بعد فائدہ نواز شریف کے علاوہ مستقبل میں وہ سیاست دان بھی اٹھا سکتے ہیں جو آئندہ کبھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی رُو سے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نااہل قرار پائیں گے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ ایک شخص جو ایماندار اور امین نہ ہونے کے باعث اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے خود تو نااہل قرار دیا جاچکا ہو، لیکن وہ پارلیمنٹ میں حالیہ انتخابی اصلاحات بل کے منظور ہونے کے بعد ایک سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ کیا یہ قانون پاکستان کے آئین سے متصام نہیں؟


آئین میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ، یعنی سینٹ اور قومی اسمبلی دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کی حلیف سیاسی جماعتوں کے تمام اراکین پارلیمنٹ کو جمع کرکے بھی دو تہائی اکثریت نہیں بنتی، اس لئے مسلم لیگ (ن) فی الحال نواز شریف کو فائدہ پہنچانے کے لئے آئین میں ترمیم تو نہیں کرسکتی، البتہ قانون سازی پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کے ذریعے بھی ممکن ہے، لہٰذا مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنانے کے لئے اسی راستے کا انتخاب کیا ہے، ایسا قانون جب سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگا، جو آئین سے متصادم ہے، تو پھراس قانون کا باقی رہنا ممکن نہیں ہوگا۔ ویسے بھی یہ صورت حال کتنی مضحکہ خیر ہے کہ ایک شخص جو خود نااہل ہونے کے باعث پارلیمنٹ کے الیکشن میں امیدوار بھی نہیں بن سکتا، وہ ایک برسر اقتدار پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے وفاقی یا صوبائی سطح پر اسی جماعت کو حکومت سازی کا حق حاصل ہوتا ہے، جس کی قومی یا صوبائی اسمبلی میں اکثریت ہوتی ہے۔


اب نواز شریف اپنی جماعت کے سربراہ کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان ارکان کے علاوہ سینٹ کے ان ارکان کے بھی لیڈر اورقائد ہوں گے، جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور یہ بھی الیکشن اصلاحات بل کی منظوری اور خود مسلم لیگ (ن) کے آئین میں ترمیم کے بعد ممکن ہوا ہے، مگر پارلیمنٹ کے الیکشن کے لئے تو نواز شریف نااہل ہی رہیں گے، کیونکہ آئین کا آرٹیکل 62اور 63ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو آئین نواز شریف کو پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دیتا، وہ آئین نواز شریف کو ایک سیاسی جماعت کا سربراہ بننے سے نہیں روکتا۔۔۔ یہ مضحکہ خیز صورت حال زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی، آئین صرف ان افراد کو پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے سے نہیں روکتا، جو امین اور صادق نہ ہوں، بلکہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے مطابق اور بھی بہت ساری شرائط ہیں، جن پر پورا نہ اُترنے والا کوئی شخص پارلیمنٹ کے لئے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔آئین کا ایک آرٹیکل 63۔ الف ہے، جو ایسے ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں ہے جو پارلیمنٹ کی کارروائی میں اپنی پارلیمانی جماعت کے فیصلے اور ہدایات پر عمل نہیں کرتے۔


مثلاً اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارلیمانی جماعت کی ہدایات کے برعکس وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے اپنے ووٹ کا استعمال کرے گا یا کسی قانون سازی اور دستوری ترمیم کے موقع پر اگر کوئی رکن پارلیمنٹ اپنے ووٹ کا استعمال اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف کرے گا تو اس شخص کو پارٹی سے منحرف قرار دے دیا جائے گا اور وہ پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم ہو جائے گا۔ اس آرٹیکل کے مطابق پارٹی کا سربراہ اپنی جماعت سے منحرف ہونے والے رکن پارلیمنٹ کا اعلان کرے گا اور اس اعلان کی نقل بھی چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔ وہ پارٹی سربراہ جو خود تو پارلیمنٹ کے الیکشن کے لئے نااہل ہے، اس کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کو اظہار وجوہ کا یہ نوٹس دے کہ کیوں نہ تمہارے خلاف پارٹی سے منحرف ہونے کا اعلان کردیا جائے۔

جب کسی منحرف ہونے والے رکن پارلیمنٹ کی بابت پارٹی سربراہ کے اعلان کی نقل الیکشن کمیشن کو موصول ہوجائے گی تو الیکشن کمیشن 30دن کے اندر مذکورہ رکن پارلیمنٹ کی اہلیت یا نااہلیت کے بارے میں اپنا فیصلہ سنائے گا۔



کیا یہ صورت حال بھی مضحکہ خیز نہیں ہے کہ ایک ایسا پارٹی سربراہ جو خود تو پارلیمنٹ کے لئے نااہل قرار دیا جاچکا ہے اور جس کی نااہلی سے متعلق فیصلہ بھی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے کیا ہے۔ وہ پارٹی کے سربراہ کے طور پر اپنی سیاسی جماعت سے منحرف ہونے والے کسی رکن پارلیمنٹ کا اعلان کرے گا اور الیکشن کمیشن کو اپنے اعلان کی نقل بھیجے گا، جس کے ساتھ الیکشن کمیشن کو یہ استدعا کی جائے گی کہ منحرف ہونے والے رکن پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیا جائے۔ کاش مسلم لیگ(ن) نے نواز شریف کو پارلیمنٹ کے لئے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد اپنا پارٹی سربراہ بنانے کے لئے اپنے دستور میں ترمیم نہ کی ہوتی اور نہ ہی ایسے الیکشن اصلاحات بل کی منظوری کی ضرورت تھی، جس کا سہارا لے کرپارلیمنٹ کے لئے نااہل قرار پانے والے کسی شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ وہ قانون سازی جس سے سپریم کورٹ کا ایک تاریخی فیصلہ مذاق بن کر رہ جائے۔ ایسی قانون سازی خود جمہوریت کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، اگر حکمران خود آئین کی اصل روح کا احترام نہیں کریں گے تو اس کے نتائج کبھی اچھے ظاہر نہیں ہوں گے۔ پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی سے خود ہی اجتناب کرنا چاہئے تھا۔


اللہ کرے ہمارے ملک کے سیاسی حالات اعتدال ہی میں رہیں اور ہم ایسی صورت حال پیدا نہ کریں جو ہمارے جمہوری نظام کے لئے خطرے کا باعث ہو۔اس ملک کی خیر ہو، ملک کے جمہوری اداروں کی خیر ہو، لیکن آئین کے احترام ہی سے یہ سب ممکن ہے اور اے میرے وطن کے سیاست دانو! آئین کی پاسداری کا فرض تم پر کچھ زیادہ ہی عائد ہوتا ہے، کیونکہ آئین جمہور کے منتخب نمائندے بناتے ہیں۔

قوم کے منتخب نمائندے ہی اگر ایسی قانون سازی کریں گے، جو آئین سے اور آئین کی اصل روح سے بغاوت ہوگی تو پھر ان اداروں سے آپ آئین کے احترام کی کیا امید رکھیں گے، جن کی پہلے سے ہی یہ سوچ ہو کہ آئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو آئین کو کاغذ کے محض چند پرزے سمجھتے ہیں اور وہ لوگ جو آئین بناتے ہیں، ان کی سوچ مختلف ہونی چاہئے۔ جن اداروں نے وزیر داخلہ کو احتساب عدالت کے اندر جانے سے روک دیا ہے اور جس طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں چل سکتی، اگر حکومت ان غیر منتخب اداروں کے مقابلے میں خود کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے تو پھر وہ ایسی قانون سازی سے باز آجائے جو آئین کے خلاف ہے۔

مزید :

کالم -