سیاسی میدان میں واپسی ، نواز شریف کا جذباتی خطاب ، لیکن اپنے پتے شوکرانے سے گریز

سیاسی میدان میں واپسی ، نواز شریف کا جذباتی خطاب ، لیکن اپنے پتے شوکرانے سے ...

  

اسلام آبادسے تجزیہ سہیل چودھری

سابق وزیراعظم محمد نوازشریف ملک کی غیر معمولی سیاسی صورتحال کے تناظر میں پھر سے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر بن گئے ہیں ، کنونشن سنٹر میں پاکستان مسلم لیگ ن کے جنرل کونسل کے اجلاس میں نوازشریف کو ن لیگی رہنماؤں کی جوشیلی تقریروں اور کارکنوں کے پر جوش نعروں میں ایک انتہائی جذباتی ماحول میں بلا مقابلہ صدر منتخب کرلیا گیا ، تاہم توقع کی جارہی تھی کہ نوازشریف ڈرائیونگ سیٹ پر آکر شائد کوئی بہت غیر معمولی خطاب کریں اور اپنے ائندہ کے سیاسی لائحہ عمل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کن اور واضح لائن اختیار کریں لیکن ایسا دیکھنے میں نہیں آیا ، لگتاہے کہ نوازشریف ملک کے سیاسی میدان میں رسمی طورپر لوٹ کر خاصے خوش تو تھے اور جذباتی بھی نظر آرہے تھے لیکن جذبات کی رو میں بہہ کر انہوں نے ’’اپنے پتے شو‘‘کروانے سے گریز کیا ، وہ تقریب میں پھولے نہیں سما رہے تھے انہوں نے اس موقع پر قدرے جذباتی انداز میں دل کے پھپھولے بھی پھرولے اور اقامہ کی تلخ یادوں کو بھی دھرایا لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں کوئی غیر معمولی یا چونکا دینے والی بات نہیں کی ، زیادہ تر اپنی پرانی باتوں کا ہی اعادہ کیا لیکن ایک واضح فرق یہ ہے کہ اپنی نااہلی کے بعد جب بھی انہیں کہیں خطاب یا گفتگو کرنے کا موقع ملا تو ان کے لہجہ میں تلخی اور غصہ جھلکتا ،بعض اوقات ان کا چہرہ خاصا دکھی بھی نظرآتاانہوں نے اپنے خطاب میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا بار بار انہیں بے دخل کیا گیا اس پر انہیں یقیناًغصہ ہے لیکن گزشتہ روزتقریب میں ان کا چہرہ تمام وقت فرط جذبات سے ٹمٹماتا رہا حتیٰ کہ تلخ یادوں کو دھراتے ہوئے بھی ان کے چہرے پر پہلے جیسی تلخی یا غصہ نظر نہیں آیا اپنی نااہلی کے بعد گزشتہ روز یہ پہلی تقریب تھی جس میں وہ نہ صرف خوش نظر آئے بلکہ پر اعتماد ہونے کے ساتھ پر امید بھی نظر آئے دوران تقریر ان کا وہی لب ولہجہ او ر اسلوب واپس لوٹ آیا جو 90کی دہائی میں ہوا کرتا تھا وہ تقریر کرتے ہوئے اپنے سامنے موجود پارٹی کارکنوں سے بار بار براہ راست مکالمہ کرتے بھی نظر آئے کنونشن سنٹر میں ہونے والی اس تقریب میں مقررین نے شعرو شاعری سے بھی خوب کام لیا، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس موقع پر خوب شعر سنائے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی پیچھے نہیں رہے اور بالآخر نوازشریف کو بھی ایک پرانا شعر یاد آگیااس موقع پر نوازشریف نے ایک دلچسپ تبصرہ بھی کیا کہ آج کی محفل شیرو ں اور شاعر ی کی ہے ، ایک موقع پر نوازشریف نے اپنے مداحوں کے جواب میں انہیں’’ آئی آلسو لو یو‘‘ بھی کہا،جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے جنرل کونسل میں وزیراعلی شہباز شریف نے اپنے بارے میں پائے جانے والے صلح جو اور مفاہمتی شخصیت کے تاثر کو اپنی تقریر میں مہمیز بخشی ، انہوں نے نام لئیے بغیر ان نوجوان مشیرو ں کو ہدف تنقید بنایا جو عہدوں اور مراعات کی خاطر غلط مشورے دیتے رہے ، تاہم یہ ایک کھلا راز ہے کہ یہ نوجوان مشیرکون ہیں ؟قرین قیاس یہی ہے کہ شائد یہ وہی لوگ ہیں جو محترمہ مریم نوازشریف کی کچن کابینہ میں تھے ، شہبازشریف نے اپنے بڑے بھائی کو ایسے مشیروں سے دور رہنے کی تلقین کرکے درحقیقت اس تاثر کو بھی گہرا کیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن میں جہاں عقابی سوچ ہے وہاں فاختہ کی فکر بھی پائی جاتی ہے ، اسے پارٹی کے اندر سوچ کی تفریق بھی قراردیا جاسکتاہے اور اداروں کو مفاہمت کا ایک اشارہ بھی قرار دیا جاسکتاہے اس میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ نوازشریف نے اپنے خطاب میں اپنے بھائی شہباز شریف کی فکر کو مسترد نہیں کیا نہ ہی اعلانیہ اس سے اتفاق کیا ، اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا خاموشی ہی رکھی ، خاموشی کو نیم رضامندی بھی قرار دیا جاتاہے ، یہ پہلوبھی قابل ذکر ہے کہ نوازشریف کی تقریر میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کوئی جارحانہ طرزعمل نہیں تھا ، حتیٰ کہ ایک روز قبل ان کی پیشی کے موقع پر رینجرز کی جانب سے ن لیگی وزراء حتیٰ کہ وزیر داخلہ احسن اقبال کو روکنے کے منتازعہ معاملہ کوبھی اپنے خطاب کا حصہ نہیں بنایا کیا پاکستان مسلم لیگ ن مفاہمت اور مزاحمت کی دونوں آپشنز کو کھلا رکھنا چاہتی ہے اور اسی تناظر میں شائد ایسے ملے جلے اشارے دے رہی ہے؟ نوازشریف نے پھر سے پارٹی صدر بن کر پاکستان مسلم لیگ ن کو کسی بھی ممکنہ تقسیم سے بچالیا ہے کیونکہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کے بعد کوئی ایسی شخصیت سامنے نظر نہیں آرہی تھی جو پارٹی کے تمام مکاتب فکر کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے کوئی قائدانہ کردار ادا کرسکے ، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کے بارے میں تاثر دیا جارہا تھاکہ وہ شائد کسی منحرف دھڑے کی سربراہی کر سکتے ہیں لیکن پہلے نوازشریف کی وطن واپسی اور اب سیاست میں دوبارہ رسمی واپسی سے تمام افواہیں دم توڑ گئی ہیں،دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کی مخالف سیاسی جماعتیں نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کے معاملے کو عدالت میں لے جانے کا ارادہ رکھتی ہیں پاکستان کی سیاست ایک ایسی نہج پر آگئی ہے کہ اب سیاسی جماعتیں سیاسی اور پارلیمانی مسائل کو عدالتوں میں جاکر حل کرنے کی خواہاں ہیں جس کی بناء پر سیاسی صورتحال زیادہ پیچیدہ ہوتی جارہی ہے ۔

مزید :

تجزیہ -