سینیٹ انسانی حقوق فنگشنل کمیٹی کامیڈیا سینسرشپ معاملہ پر کھلی سماعت کا فیصلہ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر، نیوز ایجنسیاں )سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے وزار ت انسانی حقوق کو وزارت قانون سے مشا و رت کے بعد قانو ن شہادت ایکٹ میں ترامیم تیار کرنے کی ہدایت جبکہ میڈیا سینسر شپ کے معاملے پر کھلی سماعت کرنے کا فیصلہ کر لیا ، کمیٹی نے حکومت پنجاب کے اشتہار میں منظور پشتین کی تصویر دکھائے جانے کے معاملے پر بھی ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی ، چیئرمین کمیٹی مصطفی نواز کھو کھرنے کہا ہم میڈیا سینسر شپ کے معاملے پر کھلی سماعت کریں گے، جس کے بعد سینیٹ کی کمیٹی آف ہول تشکیل دی جائے گی جس کے بعد ایک ان کیمرہ میٹنگ میں ان تمام اداروں کے سربراہان کو بلایا جائے گا جن پر اس معاملے کے حوالے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں، ہم کمیٹی صحافیوں کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جائے گی، ہم میڈیا کے دوستوں کیساتھ کھڑے ہیں آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے کیلئے جو کچھ کر نا پڑا کر یں گے ، ہم آئین اور جمہوریت کی بالا دستی چاہتے ہیں۔جمعرات کو سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں سانحہ گوجرہ اور سانحہ جوزف ٹاؤن کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا سانحہ گوجرہ کو 9سال گزر چکے ہیں،واقعہ میں 8 لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں، جن میں بچے بھی شامل تھے، آج جو جواب آیا ہے اس کے مطا بق تمام لوگ رہا ہو چکے ہیں ، سانحہ جوزف کالونی کے بعد پنجاب حکومت نے وہاں بحالی کا کام کیا اور گھر تعمیر کئے ہیں۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا اقلیتوں کو تحفظ دینا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا ملک کے ادارے خراب ہو چکے ہیں، اس خرابی کی بنیاد پر ہم نے بہت کچھ کھویا ہے، ہماری نظر میں سارے انسان برابر ہیں لیکن ریاست کے اداروں کی نظر میں سارے انسان برابر نہیں ہیں، اداروں کی اس خرابی کو دور کرنے کیلئے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے عوام بہت اچھے ہیں، انکے دلوں میں نہ مذہبی منافرت ہے اور نہ ہی فرقہ واریت، یہ سب ریاستی اداروں کی طرف سے پیدا کردہ ہے۔ اس موقع پر سانحہ گوجرہ پر پنجاب پولیس حکام نے بریفنگ میں بتایا یہ کسی نے افواہ اڑائی جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ،مدعی اپنی مرضی سے باہر گیا ہے، ہمارے پاس جتنے ذرائع ہیں ہم انہیں استعمال کرتے ہیں، واقعہ میں 26افراد کی گرفتاری بقایا ہے جبکہ مدعی کے جانے کی وجہ سے کیس رکا ہوا ہے،یہ سارے نامعلوم ملزمان تھے جن کے نام مدعی نے دینا تھے، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا نامعلوم تو ہر مقدمے میں ہوتے ہیں پولیس کا اپنا بھی کوئی کردار ہوتا ہے، سانحہ جوزف کالونی میں پوری دنیا نے دیکھا کہ گھر جلائے جا رہے ہیں جس پر پولیس حکام نے کہا جب بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو سب سے پہلے ایس پی اور دیگر پو لیس عملے کو معطل کر دیا جاتا ہے اور پورا تھانہ معطل ہوجاتا ہے جنہوں نے یہ سب دیکھا ہوتا ہے، جس پر سینیٹر مصدق ملک نے کہا پولیس کسی ایک فرد کا نام نہیں بلکہ پورا ادارہ ہے، وہاں تحفظ فراہم کرنیوالے ادارے موجود تھے اور آگ لگی، اس بات پر معطلی ہی تو بنتی ہے۔پولیس کے اندر ریسورسز بڑھانے کی ضرورت ہے، پولیس کی ایلوکیشن بڑھانی چاہیے کم نہیں کرنی چاہیے، اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے کہا وزارت انسانی حقوق وزارت قانون کیساتھ مل کر قانون شہادت ایکٹ میں ترامیم تیار کر کے کمیٹی کے سامنے پیش کرے جبکہ پولیس کو ان واقعات کیلئے تحقیقات آگے بڑھانی چاہئیں اور دو ہفتے میں ہمیں پیشرفت رپورٹ دی جائے۔ اجلاس میں میڈیا پر سینسر شپ پر بھی بحث کی گئی، چیئر مین کمیٹی نے کہا بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹ میں بھی سینسرشپ کا ذکر کیا گیا ہے، یہ تشویش کی بات ہے کہ آزادی اظہار رائے کی خلا ف ورزی ہو رہی ہے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا پی ٹی آئی کو جتوانے اور ایک اور پارٹی کو بنانے کیلئے کیا کیا تماشے ہوئے ہیں، سابق سینیٹر فر حت اللہ بابر نے کہا سینیٹ میں اس معاملے پر کمیٹی آف ہول بلانے کی قرارداد پیش کی جائے۔اس موقع پر چیئرمین پیمرا نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہمارا سینسر شپ سے کوئی تعلق نہیں، ہم نے کبھی کسی چینل یا پروگرام کو بند کرنے کا نہیں کہا، ہم سینسر شپ باڈی نہیں ہیں، عوامی شکایات کے بعد کاروائی کرتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے چاروں صوبائی آئی جیز کو ایک چینل کو بند کرائے جانے پر کیبل آپریٹر کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کر دی۔ آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانے کیلئے جو کچھ کر نا پڑا کر یں گے ، ہم آئین و جمہوریت کی بالا دستی چاہتے ہیں ۔
سینیٹ کمیٹی