توبہ کی تو فیق
سرزمین دمشق کے ایک بزرگ نے عمر کے آخری حصہ میں گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ یہ بزرگ ان لوگوں میں سے ہرگز نہ تھے جو ہر کام دکھاوے کے لیے کرتے ہیں اور دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لیے دینداری کا ڈھونگ رچاتے ہیں لیکن برا چاہنے والوں کی زبان کون پکڑ سکتا ہے۔ ان کا ایک بد خواہ تھا۔ وہ جہاں جاتا، اس بزرگ کو برا بھلا کہتا۔ کبھی دکھاوے کی پرہیز گاری بتاتا۔ کبھی طرح طرح کے عیب نکالتا اور من گھڑت خامیاں تلاش کرتا۔
س بزرگ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ اس شخص کی دشمنی کا حال سن کر آب دیدہ ہو گئے۔ آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر فرمایا۔
"یا اللہ! اس شخص کو توبہ کی توفیق بخش تاکہ یہ ان حرکات سے باز آ جائے اور اگر واقعی مجھ میں ایسی خامیاں موجود ہیں جو وہ لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے تو مجھے توفیق توبہ عطا فرما۔"
حاصل کلام
انسان کو اپنے آپ میں قوت برداشت پیدا کرنی چاہیے۔ خوشامد کرنا اور خوشامد پسند ہونا بہت زیادہ سنگین عیب ہے۔ دشمن کی کہی ہوئی باتوں سے دکھ ضرور ہوتا ہے لیکن ضبط نفس سے زندگی گزارنی چاہیے۔ بقول حضرت سعدی:
"میں اس شخص کو دوست سمجھتا ہوں جو مجھے میرے عیوب سے آگاہ کرے۔"