جب ہم فطرت سے بھاگتے ہیں!
ان کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ بہت دعاؤں کے بعد ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ بہت ناز نخروں سے پالنے لگے۔ اب اْن کی خواہش تھی کہ لڑکا پیدا ہو جائے تو فیملی مکمل ہو جائے مگر اب کی بار وہ اپنے ہاں اولاد کی خبر سن کے پریشان ہو گئے۔ اْن کے گھر لڑکا پیدا نہیں ہْوا تھا۔۔۔۔۔ اور نہ وہ لڑکی تھی۔ بلکہ وہ تو مخنث تھی۔ ڈاکٹروں نے یونہی اْسے ہاتھ میں تھمایا تو دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔ اس خبر کی انھوں نے کسی کو ہوا نہ لگنے دی۔ صرف بچوں کی دادی کو علم ہو سکا۔ دادی نے اْن کی ڈھارس بندھائی اور معاملہ اللہ پہ چھوڑنے کو کہا۔
دن گزرتے گئے۔ یہ مخنث جس کا نام ’یاقوت‘ رکھا گیا،بڑی لڑکی کے مشابہ تھی۔ یہ دونوں بہنوں کی طرح ایک گھر میں جوان ہوتی رہیں۔یاقوت کی تربیت سے زیادہ اْس کے راز کو چھپا کے رکھا گیا۔ بالآخر ایک دن میاں کے دفتر سے اْن کے بہت قریبی بچپن کے دوست نصیر صاحب اْن کی چھوٹی لڑکی ’یاقوت‘ کا رشتہ مانگنے آگئے۔ وہ دونوں میاں بیوی بہت گھبرائے۔ انھیں بچی کی دادی کی نصیحت یاد آئی کہ اس کی شادی کا سوچنا بھی نا۔ بس گھر میں پالتے جانا۔ کسی کو خبر تک نہ ہونے دینا کہ یہ مخنث لڑکی ہے۔
نصیر صاحب کوفوراً کوئی جواب نہ دیا گیا۔دادی کو فوت ہوئے بھی زمانہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے بہتر سمجھا کہ شادی کر دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ طلاق ہو جائے گی، یوں ہم بیٹی کو عزت کے ساتھ گھر میں رکھ لیں گے کہ مطلقہ ہے اب وہ شادی نہیں کرنا چاہتی۔ رہی بات نصیر صاحب کی تو وہ بچپن کے دوست ہیں انھیں منا لیں گے کہ کسی سے اس کا ذکر نہ کریں۔ اس سلسلے میں وہ اپنی ساری جمع پونجی نصیر صاحب کو دینے پر تیار ہو گئے۔ ویسے بھی انھوں نے عمر کے اس آخری حصے میں جائیداد کو کیا کرناتھا۔۔۔۔ چناں چہ شادی کے لیے ہاں کر دی گئی۔
جنوری کی بارہ تاریخ کو ’یاقوت‘ بیاہ کے نصیر صاحب کے بیٹے سلطان خان کے گھر آ گئی۔شادی کے بعد یاقوت کے والدین رات دن گھبرانے لگے۔ نہ دن کو چین، نہ رات کو نیند۔۔۔۔۔پھر انھیں خبر ملی کہ سلطان کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے اور سخت بیمار ہے۔ وہ تیمارداری کرنے گئے اور چپکے سے لوٹ آئے۔مگر کسی قسم کی کوئی بری خبر اْن کے ہاتھ نہ لگی جس کا انھیں ایسے انتظار تھا جیسے پانی میں سانس لینے کی کوشش کرنے والے شخص کو اپنی کوششوں کی ناکامی کا انتظار ہوتا ہے۔
تین ماہ گزر گئے۔ دونوں میاں بیوی کبھی کبھار ڈرتے ڈرتے فون کر لیتے اور حال احوال پوچھ لیتے۔مگر ان کی بیٹی سے جنسی تعلقات کی خبر لینے میں ہچکچاہٹ سی رہتی۔ ادھر سلطان کی طبیعت تھی کہ سنبھل ہی نہیں پا رہی تھی۔ پہلی بار انھیں یہ سوچتے خوشی ہوئی کہ کاش سلطان مر ہی جائے اس طرح ہمارا بھرم تو رہ جائے گا مگر فوراً اس خیال سے انھیں شرم آنے لگی۔
ایک دن نصیر صاحب نے سخت گھبراہٹ میں فون کیااور کہا کہ میں اور بیگم آپ سے ملنا چاہ رہے ہیں۔ دونوں میاں بیوی سمجھ گئے کہ کھیل ختم ہونے والا ہے اور اب ہم ایک ایسی مشکل میں گھرنے والے ہیں جو سماج میں پورے خاندان کی عزت کو تارتار کر دے گی۔
نصیر صاحب کا موڈ آف تھا۔ انھوں نے گھر داخل ہوتے ہی کہا کہ ہم کچھ نہیں کہنے آئے بس ایک فیصلہ لے کے آئے ہیں آپ کو قبول کرنا ہوگا۔
صوفے پہ بیٹھتے ہی وہ بولنے لگے:
”بات یہ ہے کہ ہم آپ کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔ میرا بیٹا مخنث ہے۔ وہ کوئی بیمار نہیں وہ جنسی تعلق قائم ہی نہیں کر سکتا۔ آپ اپنی پھول جیسی بیٹی کا مستقبل تباہ نہ کریں۔ اْس نے ابھی تک اْسے چھوا بھی نہیں۔ہم شرمندہ ہیں ہم نے آپ کو خبر نہ کی۔ آپ کی بیٹی کو طلاق دینے سے ہمارے بیٹے کا بھرم رہ جائے گا اور پھر وہ عمر بھر شادی نہیں کرے گا۔آپ ہماری جائیداد کا ایک حصہ رکھ لیجئے۔ ویسے بھی ہم نے عمر کے اس آخری حصے میں جائیداد کو کیا کرناہے۔“