متحدہ اراکین کا بل اور سندھ اسمبلی کا ردعمل!
سندھ اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے شور اور احتجاج کے باوجود اکثریت رائے سے ایک قرارداد منظور کی گئی،جس میں نئے صوبے کی تشکیل کے لئے آئین میں دیئے گئے صوبائی اسمبلی کے تحفظ کو ختم کرنے کے لئے دو تہائی اکثریت سے اجازت کی شرط ہے، اسمبلی کے ایوان میں بہت تلخی ہوئی۔سپیکر اسمبلی سراج درانی سمیت صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی اور دوسرے اراکین حزبِ اقتدار نے سندھ کے حوالے سے بہت پُرجوش انداز میں ”مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں“ کہا تو ساتھ ہی ایم کیو ایم کو سازشی بھی قرار دیا،اس پر ایم کیو ایم کے ارکان نے بھی احتجاج کیا۔آئین میں آرٹیکل239 میں شق(4) ہے۔اس میں یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ اگر وفاق کی چاروں اکائیوں میں کسی اکائی میں نیا صوبہ بنانا مقصود ہو تو متعلقہ اسمبلی کی دوتہائی اکثریت سے رضا مندی لازم ہے،اس شق ہی کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں ابھی تک نئے صوبے کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی۔پنجاب میں تو برسر اقتدار تحریک انصاف، اپوزیشن، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی جنوبی صوبہ کے حق میں ہیں اور یہاں قرارداد موجود ہے،تاہم سندھ میں پیپلزپارٹی کی واضح اکثریت ہے،جو حزبِ اختلاف کی ایم کیو ایم،تحریک انصاف اور جی ڈی اے سے بھی دوگنا زیادہ ہے۔یوں یہاں صوبہ کی تشکیل پیپلزپارٹی کی مرضی کے خلاف ممکن نہیں،جبکہ جی ڈی اے حزبِ اختلاف میں ہو کر بھی ایم کیو ایم کے نظریئے سے متفق نہیں۔اس تنازعہ کا پس منظر یہ ہے کہ ایم کیو ایم شہری اور دیہی سندھ کی تقسیم کے تنازعہ سے فائدہ اُٹھا کر کراچی اور حیدر آباد کو ملا کر نیا صوبہ بنوانے کی خواہش مند ہے،اس پر نظریاتی بحث بھی ہوتی رہتی ہے،پیپلزپارٹی ایسا نہیں ہونے دینا چاہتی اور برملا اعلان کرتی ہے کہ سندھ تقسیم نہیں ہو گا۔ اب اس نئے جھگڑے کا پس منظر یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے چار اراکین نے پرائیویٹ ممبرز ڈے پر ایک نجی بل پیش کر دیا ہے،جس کے مطابق آرٹیکل239 کی شق(4) کو حذف کرنا مقصود ہے، موقف یہ ہے کہ یہ قدغن پارلیمینٹ کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے،کہ وفاق اگر کسی صوبے میں کوئی نیا یونٹ بنانا چاہے تو اسے اس صوبے کی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی،جو قرارداد منظور کر کے حمایت کرے۔یہ نجی بل قومی اسمبلی کے ہنگامے میں مجلس قائمہ کے سپرد ہو گیا اور اب لازم ہے کہ مجلس قائمہ اس پر غور کر کے رپورٹ کرے،اور ایوان غور کرے۔ ایم کیو ایم کو اچھی طرح علم ہے کہ یہ معاملہ قانون سازی نہیں،آئینی ترمیم کا ہے اور آئینی ترمیم کے لئے پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے،جو برسر اقتدار مخلوط حکومت کو حاصل نہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں جگہ یہی صورتِ حال ہے، ان حالات میں بل پیش کرنے کو پیپلزپارٹی نے انگیخت اور سازش قرار دیا اور اسی کے خلاف قرارداد بھی منظور کی ہے۔یوں ایک یہ تنازعہ بھی ابھارا گیاہے، معزز اراکین اور سیاسی جماعتوں کو غور کرنا ہو گا کہ کیا ایسے اقدامات مفید ہیں؟اگر نئے صوبے بنانا ہی ہیں تو اس کے لئے افہام و تفہیم ہی بہتر راستہ ہے،ایسے عمل سے زیادہ تفریق اور تقسیم ہو گی جو عصبیت کے زہر کو اور بھی گہرا رنگ دے گی۔