حال سے مستقبل تک!محاذ آرائی نقصان دہ!
پاکستان کی ”جمہوری“ اور آمرانہ تاریخ ایسے ہی حالات سے بھری ہوئی ہے،جو اب منظر عام پر ہیں،جمعیت علماء اسلام(ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے اپنے آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے اور میڈیا کی تمام تر خبروں اور خواہشات کے مطابق بظاہر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی تجاویز کو درخور اعتنا نہیں جانا گیا۔ یوں ابھی سے یہ رائے دینا شروع کر دی گئی کہ یہ بھی ناکامی کا منہ دیکھے گی اور تحریک نہیں بن سکے گی،اس سلسلے میں دلچسپ درفنطنی جمعرات کو شریف خاندان کی جیل میں ہونے والی ملاقات کے حوالے سے تھی کہ چھوٹے بھائی محمد شہباز شریف نے بڑے بھائی محمد نواز شریف کو واضح جواب دے دیا کہ مولانا کے آزادی مارچ میں مسلم لیگ(ن) والوں کی قیادت نہیں کر سکتے کہ وہ بیمار ہیں اور ان کی صحت اجازت نہیں دیتی،یہ خبر غالباً ان کی کمر کی تکلیف کے حوالے سے تھی، کہ حال ہی میں ان کو ”بیڈ ریسٹ“ کی ضرورت پیش آ گئی،خبر سے یہ احساس ہوتا تھا کہ بھائیوں کے درمیان بالآخر ”کھلا تضاد“ ہے،لیکن فوراً ہی مریم اورنگزیب نے اس کی تردید بھی کر دی،
ہمیں تو پہلے ہی یہ اندازہ تھا کہ خبر خاص مقصد کے لئے چلائی ہے،کیونکہ اب تک یہی ظاہر ہوا کہ محمد شہباز شریف اور محمد نواز شریف کے لائحہ عمل میں مصالحت اور جدوجہد کا فرق ہے ہم نے اپنے تجربے کی بنا پر ایک سے زیادہ بار عرض کیا تھا کہ اس خاندان میں احترام باہم کا رشتہ ایسا ہے کہ محمد شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کی پیشکش قبول نہیں کی تھی اور اب تازہ ترین انکشاف سے بھی اسی امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ چھوٹے کو بڑے کا احترام ہے۔وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے جو یہ کہا کہ نواز شریف اگر چودھری نثار اور ایک دو دوسرے حضرات کی بات مان لیتے تو وزیراعظم ہوتے،نام تو صرف چودھری نثار کا لیا ہے،دوسروں میں اہم شخصیت تو خود محمد شہباز شریف کی ہے،انہوں نے چودھری نثار کی دوستی اور ”مفاہمانہ“ پالیسی مسترد کرنا گوارا کیا،بھائی کو نہیں چھوڑا،ایسا تضاد ڈھونڈھنے والوں کو اِس امر پر بھی غورکرنا ہو گا کہ معاشی اور اقتصادی مفادات کسی وقت خونی رشتے سے بھی زیادہ اہم ہو جاتے ہیں یہاں تو یہ خونی رشتے معاشی اور اقتصادی مفادات میں بھی بندھے ہوئے ہیں،اس کے لئے نیب کی انکوائری ملاحظہ فرما لیں۔
بات مولانا فضل الرحمن کے ”آزادی مارچ“ سے شروع کی تھی،ہم نے اس ملک میں ”عشرہ ترقی“ بھی دیکھا اور اسی دوران تحریک کا آغاز بھی نظر آیا،بظاہر یہ بھی ناکام تھی،لیکن آخر کار مرحوم ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا،پھر وہ دور بھی آیا، جب ذوالفقار علی بھٹو نے سوچ سمجھ کر کامیابی کے یقین کے ساتھ قبل از وقت عام انتخابات کرا دیئے، اور غیر متوقع طور پر تحریک کا سامنا کیا اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے،جب بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ حکومت اور حکمرانوں کا کوئی مقابلہ نہیں،حزبِ اختلاف کے درمیان شدید اختلاف کی خبریں تھیں اور حقیقتاً متضاد نظریات اور مزاج کے حامل حضرات اکٹھے ہو گئے تھے، عام طور پر کہا جاتا ہے کہ میڈیا اہم ہے اور میڈیا حکومتیں سنبھالنے اور گرانے مییں کردار ادا کرتا ہے،اب بھی یہی تصور کیا جا رہا ہے، چنانچہ حکمرانوں کی چھینک بھی لائیو ہے اور معاون خصوصی محترمہ تو ایک ہی وقت میں سب چینلوں پر دستیاب ہیں اور ان کا ٹویٹ بھی لائیو ہی ہوتا ہے کہ تصویر لازم ہے۔
اب انہوں نے بھی یہی فرمایا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مولانا کے ساتھ نہیں ہیں،اور فرزند ِ راولپنڈی جسے نصرت جاوید بقراط عصر کہتے ہیں، کا فرمانا ہے کہ مولانا آزادی مارچ نہیں کر سکیں گے اور مولانا نے اس سب کے باوجود تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو تمام تر تحفظات کے باوجود ان کی حمایت کا اعلان کرنا پڑا اور مسلم لیگ(ن) نے تو شمولیت کا تاثر دیا ہے اور مولانا سے ایک ماہ کی مہلت کی اپیل کی تھی،لیکن مولانا نفسیاتی طور پر یہ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے تحریک کو اکتوبر کے بعد تک موخر کیا تو ان کی اپنی جماعت کا مورال گرے گا،جسے وہ تیار کرتے چلے آ رہے ہیں اور یہ تیاری جہادی قسم کی ہے۔ اگر وہ چاہتے تو اپنی جماعت کے مرکزی جائنٹ سیکرٹری مولانا محمد حنیف کی دہشت گردی میں شہادت کے عذر پر تاخیر کر سکتے تھے،مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
جہاں تک مسئلہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کا ہے تو تحفظات ڈھکے چھپے نہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور خود پیپلزپارٹی میں ایسے حضرات کی تعداد کم نہیں جو سنجیدہ فکر ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کسی بڑی تحریک کا نہیں،ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات خراب تر ہو رہے ہیں تو سرحدی تناؤ میں بھی اضافہ ہو چکا ہے، مقبوضہ کشمیر کی مظلومیت بھی اتحاد ہی کا تقاضہ کرتی ہے اس کے ساتھ ہی ان حضرات کا موقف ہے کہ تحریک کی کامیابی جمہوری نظام کو لپیٹ دے گی اور ناکامی کی صورت میں عمران خان واقعی جمہوری آمر بن جائیں گے،اس کے برعکس تحریک کے حامی بھی بہت ہیں،بلکہ اکثریت میں ہیں۔
مسلم لیگ(ن) میں محمد نواز شریف کا بیانیہ ہی دلیل ہے،جبکہ پیپلزپارٹی کے جیالے سمجھتے ہیں کہ قانون کی آڑ میں پارٹی ختم کرنے کی پھر سے کوشش ہو رہی ہے اور پارٹی کا وجود بچانے کے لئے سیاسی طاقت اور عمل کا لوہا منوانا ضروری ہے۔ان خیالات اور حالات میں مولانا سے دورن خانہ بہت کچھ طے پا چکا ہے،اور مسلم لیگ(ن) کی مرکزی مجلس عاملہ8اکتوبر کو نئے حالات اور قائد مسلم لیگ محمد نواز شریف کی ہدایت کا نئے سرے سے جائزہ لے گی اور پیپلزپارٹی بھی کور کمیٹی کا اجلاس بلانے پر مجبور ہے،اِس لئے آج زبانی حمایت و تائید کل حالات کو تبدیل بھی کر سکتی ہے۔
ان حالات میں یہ بھی بتا دیں کہ بلاول بھٹو زرداری نے جب دسمبر اور جنوری کا ذکر کیا اور اس حوالے سے یہ اعلان کیا کہ12اکتوبر کو سانحہ کار ساز کی یاد میں جلسہ سے خطاب کے بعد ریلیوں اور جلسوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تو بعض حضرات نے تجزیہ کیا تھا کہ جنوری، فروری موجودہ حکومت کے لئے آخری موقع ہو گا اور پھر نئے انتخابات ہو سکتے ہیں،جو بھی ہونا ہے وہ ہو جائے گا۔ہماری گذارش یہ ہے کہ حکومت خود تحریک انصاف کے طویل دھرنے سے سبق سیکھے کہ طویل تر احتجاج ناکام ہو گیا تھا کہ اس وقت سیاسی جماعتوں نے سارا وزن پارلیمینٹ کے پیچھے ڈال دیا تھا، لیکن آج صورتِ حال مختلف ہے۔ گڈ گورننس (اچھی حکمرانی) کا دور دور تک نشان نہیں،سرکاری ادارے اور ملازمین کام ہی نہیں کر رہے،حتیٰ کہ ڈینگی جیسی وباء کو بھی نظر انداز کر کے کام چوری کر رہے ہیں،بیورو کریسی دم سادھے ہوئے ہے۔ صنعت کاروں اور تاجروں کو احتساب سے بالا قرار دے دیا گیا ہے اور پارلیمینٹ کو تو بالکل ہی اہمیت نہیں دی جا رہی،ایسے میں اگر مہنگائی، صحت، بے روزگاری، کساد بازاری اور عوامی مسائل کو واقعی سنجیدہ انداز سے لیا گیا تو حکومت کے لئے بہت مشکل ہو گی۔بہتر ہو گا کہ حکومت اپوزیشن کو اچھوت سمجھنا چھوڑ دے، پارلیمینٹ کا وجود تسلیم ہی نہ کرے،بلکہ اہمیت دے اور سب کچھ پارلیمینٹ ہی کے ذریعے جمہوری انداز میں کرے کہ اتنی بڑی محاذ آرائی ملکی مفاد میں نہیں تو سیاست اور جمہوریت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔