مسافر ہلکا پھلکا عشق بھی پروان چڑھا لیتے کچھ دنوں تک حسین یادیں پیچھا کرتیں اسکے بعد تو کون میں کون، عشق بیچارہ گاڑی کے ڈبے میں ہی کہیں رْل جاتا

مسافر ہلکا پھلکا عشق بھی پروان چڑھا لیتے کچھ دنوں تک حسین یادیں پیچھا کرتیں ...
مسافر ہلکا پھلکا عشق بھی پروان چڑھا لیتے کچھ دنوں تک حسین یادیں پیچھا کرتیں اسکے بعد تو کون میں کون، عشق بیچارہ گاڑی کے ڈبے میں ہی کہیں رْل جاتا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:269
اور ہاں کبھی کبھی ان بالائی منزلوں پر مقیم ایک مسافر اور ایک حسینہ دنیا والوں کی نظروں سے بچ کر کوئی ہلکا پھلکا عشق بھی پروان چڑھالیتے تھے۔ لیکن ظاہر ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ ساتھ والے محلے کی اوپر والی برتھ پر وہ حسینہ موجود ہو اور وہ بھی ایسے ہی ماحول اور بستر بند میں محو استراحت ہو اور خواتین ڈائجسٹ پکڑے کوئی رومانوی افسانہ پڑھ رہی ہوں۔ ویسے عام طورپر ایسے ہوتا نہیں ہے، کیونکہ وہاں عموماً کسی کھانستے ہوئے بزرگ کو چڑھا دیا جاتا ہے۔ پھربھی اگر سچ مچ یوں ہوجائے تو آنکھوں ہی آنکھوں میں محبت کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ شاید پرچیوں پرعشقیہ اشعاریا سرنامے کی کوئی لکھت پڑھت بھی ہوتی ہوگی۔ موبائل فون تب ہوتے نہیں تھے، ورنہ چپکے سے نمبروں کا تبادلہ بھی ہو جایا کرتا۔لے دے کر ہر گھر میں محکمہ ٹیلیفون والوں کا ایک سیاہ اور بھدا سا فون بیچ میدان میں پڑا ہوتا تھا اورجس کی گھنٹی بجتے  ہی گھر میں موجود ہرچھوٹا بڑا اس کی طرف دوڑ پڑتا تھا۔ ایسے کسی لائی لگ ٹیلیفون پر محبت کے پیغامات ارسال یا وصول کرنا سرا سر تشدد کو دعوت دینے والی بات تھی اس لیے یہ پیار، جو اگر تھا بھی، آخری اسٹیشن تک کی مار ہی ہوتا تھا۔ اس کے بعد کچھ دنوں تک حسین یادیں ہی پیچھا کرتی تھیں وہ بھی چند روز بعد ذہن سے محو ہو جاتی تھیں اس کے بعد تو کون اور میں کون، نوخیز عشق بیچارہ گاڑی کے ڈبے میں ہی کہیں رْل جاتا تھا۔
اور اسی بستر بند میں لیٹا ہوا فرقت کا مارا تنہا سا شخص، جس کے مقدر میں مختصر نوعیت کا یہ سفری عشق نہیں ہوتا تھا تو وہ بے چینی سے لحاف تلے  کروٹیں بدلتا اور کسی پرانی محبت کو یاد کر کے آہیں بھرتا رہتا تھا۔
سرما کی رات ریل کا ڈبہ، اداسیاں 
لمبا سفر ہے اور ترا ساتھ بھی نہیں 
 ذرا صراحی تو پکڑائیے 
مٹی کی صراحی ہے
پانی کی گواہی ہے
اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کرنے والے تقریباً ہر مسافر کے ساتھ مٹی کی نرم و نازک گردن والی ایک چھوٹی سی سادہ یا پھولدار صراحی ہوا کرتی تھی جس میں پہلی دفعہ وہ گھر سے پانی بھر کے لاتا تھا۔ اس سارے سفر کے دوران وہ نہ صرف خود اس میں سے ٹھنڈا، میٹھا اور مٹی کی سوندھی سوندھی سی خوشبو والا پانی پیتا بلکہ ساتھی مسافروں کو بھی اجازت ہوتی تھی کہ وہ اپنا ہی مال سمجھ کرجب چاہیں اس سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ 
آس پاس کی نشستوں پر بیٹھے ہوئے بے آب مسافروں کے لیے یہ پانی آب حیات سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اور جب یہ صراحی خالی ہو جاتی تھی تو اگلے اسٹیشن پر کوئی بھی نوجوان رضا کار بھاگ کر پلیٹ فارم پر لگے ہوئے بڑے سے نلکے سے اسے دوبارہ بھر کر لے آتا تھا۔ گیلی گیلی صراحی سے رستا ہوا پانی جلد ہی پنکھوں کی یاکھڑکی میں سے آتی ہوئی ہوا سے دوبارہ ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ مجھے مٹی کی یہ خوبصورت صراحی بچپن سے ہی بڑی بھلی لگتی تھی، خصوصاً پانی اْنڈھیلتے وقت جب یہ اپنی پتلی اور نازک سی گردن سے گڑ گڑ کی مدھ بھری اور نشیلی آواز کے ساتھ پانی   اْگلتی تھی، تو بقول شخصے اک سرور آجاتا تھا۔ استعمال کے بعد ایک پیتل کے منقش گلاس سے اس کی پیاری سی گردن کو ڈھانپ کر برتھ کے نیچے یا کسی کونے میں ٹکا دیا جاتا تھا۔اور وہ سارے سفرکے دوران بار بار خالی ہوتی اور بھری جاتی تھی۔ نجانے اس دوران وہ کتنے لوگوں کی پیاس بجھاتی تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -