بہر حال مجھے صاحب کو سچ بتا نا تھا، انہوں نے سیکرٹری صاحب کو بلا بھیجا اور ناراضگی کا اظہارکرتے کہا”انکار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مجھے بھی انکار کریں“
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:310
اخلاق تارڑ صاحب بھی سیکرٹری بلدیات کے امیدوار تھے۔ یہ اچھے خاندانی انسان تھے۔ عزت کرتے اور عزت لیتے تھے۔ پہلی ملاقات کے بعد ہی صاحب نے انہیں گرین سگنل دے دیا تھا۔ یہ جاٹ تھے اور سی ایم صاحب بھی انہیں ہی سیکرٹری بلدیات چاہتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ اگلے اڑھائی سال سیکرٹری بلدیات رہے۔ اُن کے ساتھ بھی یاد گار وقت گزرا۔یہ بھی صاحب کے افسر شاہی سے اچھے تعلقات کا ثبوت تھا کہ پانچ سال میں صرف 2ہی سیکرٹری بلدیات رہے۔ افسر اُن کے ساتھ کام کر کے خوش ہوتے اور خود کو comfortable محسوس کرتے تھے۔ ان پانچ سالوں میں میری بھی بھرپور کوشش رہی کہ صاحب اور سیکرٹری بلدیات کے درمیان کبھی کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ میں نے ہمیشہ خود کو محکمے کا نمائندہ سمجھا اور دونوں دفاتر کے درمیان ”پل“ کا کام کیا۔ اس بات کا ادراک سیکرٹری بلدیات کو بھی رہا اور کا اعتراف صاحب نے اپنے عزاز میں دی جانے والی الوادعی تقریب میں کیا تھا۔
چند واقعات پڑھنے والوں کی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔
میں عامر نوں وی انکار کر دیتا اے؛
صاحب ایک افسر کی پوسٹنگ کے حوالے سے بڑے حساس تھے۔ یہ ان کے حلقے کے بڑے بااثر خاندان کا چراغ تھا جو اس سیاسی اثر کا فائدہ بہتر پوسٹنگ سے حاصل کر نا چاہ رہا تھا۔ میں نے اخلاق تارڑ صاحب کو صورت حال کا بتایا۔ انہوں نے یہ کہہ کرانکار کر دیا کہ؛”ایسے ہی ایک کیس میں عامر چیمہ وزیرآ ب پاشی کو انکار کر چکا ہوں۔ توں صاحب نوں دس دے۔“ میں دفتر سے باہر آ یا اور دوبارہ ان کے پاس جا کر کہا؛”سر! اے تبادلہ کر دیو صاحب نے بڑا زور دیتا اے۔ عامر صاحب نوں انکار ہور گل اے۔“(یہ پہلا موقع تھا کہ صاحب کسی ٹرانسفر کے لئے کچھ بضد تھے۔ عموماً محکمہ جو بھی تجویز دیتا عموماً صاحب اسی سے ہی متفق ہوتے تھے۔) پتہ نہیں اس روز سیکرٹری صاحب کیوں نہ مانے۔ میں واپس آ یا۔ بہر حال مجھے صاحب کو سچ بتا نا تھا۔ انہوں نے سیکرٹری صاحب کو بلا بھیجا اور ناراضگی کا اظہارکرتے کہا؛”عامر چیمہ کو انکار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مجھے بھی انکار کریں۔ یہ میرا محکمہ ہے۔ لہٰذا جائیں اور جیسا میں نے کہا ہے تبادلہ کے آر ڈرز شہزاد کو ابھی دیں۔“ مجھے بولے؛ ”جائیں ان کے ساتھ۔“ ہمارے اور سیکرٹری بلدیات کے دفتر کے درمیان مشکل سے 30 میٹر کا فاصلہ ہو گا۔ راستے میں سیکرٹری صاحب کہنے لگے؛”توں منسٹر نوں بڑا گرم کیتا اے۔“ میں نے جواب دیا؛”سر! میں تے جناب دے گوش گزار ساری گل کیتی سی پر تسی میری گل تے دیھان ئیں کیتا۔“ خیر وہ آڈرز اسی وقت ہوئے لیکن دونوں میں بجائے بد مزگی مزید ہوتی تعلقات اور بہتر ہو گئے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
