استصواب رائے کاحق دیدیا ہوتا تومسئلہ کشمیر بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا اور آج برصغیر پاک و ہند کے عوام ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہوتے

 استصواب رائے کاحق دیدیا ہوتا تومسئلہ کشمیر بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا اور آج ...
 استصواب رائے کاحق دیدیا ہوتا تومسئلہ کشمیر بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا اور آج برصغیر پاک و ہند کے عوام ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہوتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:رانا امیر احمد خاں 
قسط:178
کشمیر ایشو پر ہمیں تمام تر اندرونی سیاسی اختلافات کو بھلا کر چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہئے 
یہ امر خوش آئند ہے کہ بالآخر بھارت کشمیر کے بنیادی مسئلے پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار اور شرائط کی رٹ ختم کر کے دوطرفہ مذاکرات پر آمادہ ہو گیا ہے۔ 
کشمیر کا مسئلہ گزشتہ 54سالوں سے جنوبی ایشیا ء کے اس خطہ میں دنیا کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس تنازعے کی وجہ سے آج تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان  3جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور ایٹمی طاقتیں بن جانے کے باوجود پاکستان اور ہندوستان کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے کروڑوں عوام غربت کی انتہائی پست سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ بھارت کی سیاسی قیادت نے گزشتہ 54 سالہ تاریخ میں جموں و کشمیر کے بنیادی مسئلے کو حل کر کے عوام کی حالت بہتر بنانے اور اپنے تمام تر وسائل کو ترقی و خوشحالی پر صرف کرنے کی بجائے خود کو بڑی ایٹمی فوجی طاقت بنانے کے لیے وقف کئے رکھا ہے۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع اور سیکورٹی کے لیے اپنے وسائل سے بڑھ کر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ 
1948ء میں کشمیر کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی پہلی جنگ کو رکوانے کے لیے خود بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپیل کی تھی اور اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیریوں کو اپنی قسمت کا آپ فیصلہ کرنے کے لیے استصواب رائے کا حق مانتے ہوئے دستخط کئے تھے۔ بعدازاں کشمیر کا مسئلہ بھارت کی ہٹ دھرمی کہہ مکرنیوں اور بدعہدیوں کا پیدا کردہ ہے۔ اگر بھارت نے عالمی برادری سے اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے 1950ء کے عشرہ میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اہالیان جموں و کشمیر کو استصواب رائے کاحق دے دیا ہوتا تو کشمیر کا مسئلہ بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا اور آج برصغیر پاک و ہند کے عوام ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہوتے۔ 
ہم پاکستانیوں اور تمام آزادی پسند اقوام کے لیے یہ امر باعث تشکر ہے کہ 7 لاکھ بھارتی افواج کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے حریت پسند عوام پر توڑے گئے ظلم و ستم، عوامی جلسوں جلوسوں پر فائرنگ، مساجد کی بے حرمتی، بم دھماکوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باوجود کشمیری حریت پسندوں اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے قائدین نے اپنے پایہئ استقلال میں کوئی جھول اور لچک پیدا نہیں ہونے دی ہمیشہ حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے، کشمیر کے مسئلہ کو سہ فریقی مسئلہ قرار دینے اور مذاکرات میں کشمیری حریت لیڈر شپ کی شمولیت پر اصرار کیا ہے۔ اور یہ مؤقف اقوام متحدہ کے فیصلے اور قراردادوں کے عین مطابق ہے جس سے ذرا سابھی انحراف کشمیریوں کی گزشتہ 54 سالہ جنگِ آزادی اور 80000 شہدا کی قربانیوں کو غارت کرنے اور کشمیر میں جاری جہاد اور خون ریزی کے سلسلے کو لامتناہی بنا دے گا۔ کیونکہ دنیا میں کسی بھی خودار قوم کو سنگینوں کے سائے تلے بزور شمشیر ہمیشہ کے لیے اپنا اٹوٹ انگ بنا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ لہٰذا ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا پیدائشی حقِ خودارادیت دئیے بغیر دنیا کے اس خطہ میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -