ریاست کو مضبوط کیسے بنایا جائے؟
پا کستا ن تحر یک انصا ف کے سر براہ عمر ان خان نے اسلا م آباد میں تحر یک انصا ف کے آزادی مار چ کے دھرنے میں اعلا ن کیا کہ وہ مو جو د حکو مت کے خلاف سول نافر ما نی کی تحر یک چلا ئیں گے ،کیو نکہ مو جو دہ حکومت ان کی نظر میں ایک ناجائز اور دھاندلی کی پیداوار حکومت ہے۔ انہو ں نے عو ام سے کہا کہ وہ بھی بجلی پانی اور گیس کے بلو ں کے ساتھ ساتھ جنر ل سیلز ٹیکس اور ٹو ل ٹیکس نہ دیں۔ان کے اس اعلان کو کوئی زیا دہ خو ش آمد ید تو نہیں کیا گیااور تاجر بر داری کے مطابق وہ ٹیکس باقا عد گی سے دیتے رہیں گے ۔ اب اس بحث سے قطع نظر کہ ٓایا عمر ان خان صاحب کا یہ فیصلہ ٹھیک ہے یا غلط سب سے پہلے مَیں سو ل نا فرمانی کی تعر یف بیان کر نا چاہو ں گا۔ قا نو ن کی مشہور ڈکشنر ی Black's Law Dictionary کے آٹھو یں ایڈیشن کے مطا بق سو ل نافر مانی کی تعر یف کچھ یو ں ہے:
A: delibrate but nonviolent act of law breaking to call attention to a particular law or set of laws bilieved by the actor to be of questionable legtimacey or morality.
اب اس تعر یف میں جو چند چید ہ چید ہ نکات ہیں، ان میں یہ کہ جان بوجھ کے تشد د کے بغیر قا نو ن توڑنا اور تاکہ حکو مت کا قا نو نی و اخلا قی طور پر جائز ہو نے پر سو ال کھڑ ے ہو ں ....اب ذرا میں یہ بھی بتا تا چلو ں کہ یہ سو ل نافر مانی کب اور کہا ں کی گئی؟ 1919ءمیں مصر کے لو گو ں نے برطانیہ کے ناجا ئز قبضے کے خلا ف سو ل نا فر مانی کی تحر یک چلائی ۔پھرہند وستان کے مشہو ر اور مقبو ل لیڈر مہاتما گاندھی نے انگریز وں کے ہند وستا ن پر قبضے کے خلاف سول نافرمانی کی تحر یک چلا ئی تھی ۔سو ل نافر مانی کی تحر یک کے جو محرکات ہو تے ہیں، وہ یہی ہو تے ہیں ،بغیر کسی تشد د کے حکو مت کو معا شی طور پر کمز ور کیا جائے اور اس وقت کی حکومت کے آئینی اور اخلا قی طور پر اس کی اتھا رٹی کو چیلنج کیا جا سکا بظاہرتو عمر ان خان کے سو ل نا فر مانی کے فیصلے کو قو می سطح پر پذیر ائی نہیں ملی ،کیو نکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم آزاد ریا ست ہیں اور ہم پر کو ئی بیر ونی طاقت قا بض نہیں ہے اور سب سے بڑ ی وجہ ملک کے کمزور معا شی حالات ہیں۔
یا د رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ سو ل نافر ما نی کا فیصلہ ایک قو م کا فیصلہ ہو تا ہے نہ کہ ایک سیا سی جماعت کا ۔اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ پاکستا ن بطور ریا ست کئی طر ح کے مسائل سے دو چارہے ۔ریاست کے مسائل کا خاتمہ ہمیشہ ریاست کے اقدامات سے اور ریا ست کے عوام کے مثبت محر کا ت سے ہی حل ہو تے ہیں۔ اس وقت ہما را سب سے بڑ ا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ستر سال کے بعد بھی ایک قو م نہیں بن سکے اور دیکھا جائے تو یہ کسی حد تک ریا ست کی ذمہ داری بھی ہو تی ہے کہ وہ اپنے عو ام کو ایک قو م کا روپ دے ،جس کا سب سے بڑ ا ثبو ت ہما رے آئین کا دوسر ا باب ہے ۔ریا ست کی ذمہ داریو ں کی آئین پاکستان 1973(دوسر ا باب جو ریاستی اصو ل پر مبنی ہے) کی شق نمبر 33کچھ یو ں ہے کہ.... The State shall discourge parochail, racial, tribal, sectrarian and provincial prejudices among the citizens....جس کا تر جمہ کچھ اس طرح ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہر یو ں کے درمیا ن علا قائی،نسلی ،قبائلی، فرقہ وارانہ اور صو بائی تعصبات کی حو صلہ شکنی کر ے گی ۔
اس امر میں کو ئی شک نہیںکہ یہ ریاست کی ذمہ دار ی تھی کہ ان تعصبات کو فروغ پانے سے روکتی اور تمام شہریوں کو ایک صف میں کھڑ ا کر کے ایک قوم کا روپ دھارنے کے لئے مو اقع اور ماحو ل فر اہم کرتی،لیکن افسوس کہ ریا ست اپنی اس ذمہ دار ی سے مبر ا ہو نے میں زیا دہ کامیا ب نہیں رہی ،اب اسی بات کا دوسر ا رخ دیکھتے ہیں کہ ریا ست کے عوام نے کیا ایسے مثبت کا م کئے کہ ہم ایک قو م کا روپ دھا ر سکیں۔ اب دیکھیں کہ مو جو دہ حالات میں ہم نے ریا ست کا کتنا ساتھ دیا ۔اس امر میں کو ئی شک نہیں کہ کو ئی بھی ریاست اس وقت تک اپنی آئینی اور اخلا قی ذمہ داریا ں پو ری نہیں کر سکتی جب تک اسے ہر شہر ی کی حما یت حاصل نہ ہو، اسی لئے اقبال نے کہا تھا کہ ہر فر د ہے ملت کے مقد ر کا ستارہ ۔ریاست اس وقت تک ایک مضبوط ریا ست نہیں بن سکتی جب تک اسے اپنے لو گوں کی حمایت حاصل نہ ہو، کیو نکہ جب ریاست کاکو ئی فر د یا افراد کا مجمو عہ ریا ست کو اپنی جائز اور آئینی ذمہ داریا ں پوری کر نے سے روکے یا آڑے آئے تو اس فر دیا افر ادکے مجمو عے کے خلا ف ریا ستی طاقت کا استعما ل ناگز یر ہو جاتا ہے ،یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کو ئی ریا ست اپنی طاقت اندرونی طور پر استعما ل کر تی ہے تو اس کے نتائج بالعموم زیا دہ حو صلہ افز ا ءنہیں ہو تے ۔ ریاست کا چو تھا اور جد ید ستو ن میڈ یا کا کر دار بہت اہم ہو تا ہے ،لیکن افسو س کہ میڈ یا ما لکا ن کی کاروباری سو چ کی وجہ سے خو دمیڈ یا کا کر دار بہت ہی مشکوک ہو گیا ہے اوراب جو کچھ پچھلے ہفتو ں سے میڈ یا پر ہو رہا ہے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ میڈ یا بھی اب ایسے عنا صر کی کسی حد تک مد د کر رہا ہے جو قا نون کو ہاتھ میں لینے میں دیر نہیں کر تے اور پوری ریا ست کے امن کو سبو تاژ کر نا چاہتے ہیں۔
اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ مثالی معا شرے بہت ہی کم ہو تے ہیں، ہر جگہ ایسے لو گ مو جو د ہو تے ہیں جو اپنے مخصو ص نظریا ت دوسر و ں پر تھوپنے کی کو شش کر تے ہیں۔ ایسے افر اد جو ریا ست یا اس کے نظر یے کے وجو د کے لئے خطرہ بنتے جارہے ہو ں اور ان کے کام ریاست یا اس کے نظر یے کی بنیا د کی نفی کر تے ہو ں تو ایسے افر اد کو ریاست کے آئین اور نظام عدل سے ہی سے سخت سزائیں دی جاتی ہیں،کیو نکہ کو ئی بھی ریا ست اپنے باغیو ں کے لئے نر م گو شہ نہیں رکھتی ۔ایک بات ہم سب کو نہیں بھو لنی چاہیے کہ ہما را آگے بڑ ھنے کا راستہ صر ف اور صر ف جمہوریت ہی ہے ،چاہے وہ پارلیما نی نظام کی صو رت میں ہو، چاہے وہ صد ارتی نظام کی صو رت میں ہو، لیکن ایک بات جو بہت واضح ہے کہ ہم چھو ٹی سی عمر میں بہت تجر بے کر بیٹھے ہیں ،یہا ں پارلیما نی نظام بھی آیا اور یہا ں صدراتی نظام بھی ۔مارشل لا ءنے ڈیر ے ڈالے رکھے،غیر جما عتی انتخا بات اورریفر نڈ م بھی ہو ئے ،لیکن ریا ست کے مسائل بڑھتے گئے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مفاد سے بالا تر حقیقی جمہوریت کو رائج کر یں اور ریا ست کے مسائل کو حل کریں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ میں مما لک ایک ہی طر ز حکو مت ہے، جسے جمہوریت کہتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی سو چنا چاہیے کہ کب تک ہم اپنی انا کو ریاست پر تر جیح دیں گے ۔