کتنے ہی چھ ستمبروں کے بعد یہ چھ ستمبر آیا!
بات بات پر ہنگامہ کھڑا کر کے مسلمانوں کو مارنے اور اُسے ’’ہندومسلم فساد ‘‘کا نام دینے،اور آئندہ امن اور جان بخشی کے لئے ہندوؤں کے مشہور لیڈر ستیہ دیو کی طرف سے مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنے کہ ’’قرآن کو اسلامی کتاب نہ سمجھاجائے۔محمدﷺ کو خدا کارسول نہ مانا جائے۔سعدی ورومی کی بجائے تلسی کبیرداس کو پڑھا جائے ۔اسلامی تہواروں کی بجائے ہندو تہوار منائے جائیں۔ اسلامی نام رکھنے ترک کئے جائیں۔تمام عبادتیں عربی کی بجائے ہندی میں کی جائیں ۔‘‘ اور پھر مہاتماگاندھی کی طرف سے بھی ہندوستان میں قیامِ امن کے لئے یہ تین شرائط پیش کرنے کہ ’’مسلمانوں کو اسلام سے الگ کرکے پُرانے دھرم پر لایاجائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوتو مسلمانوں کو ان کے قدیم علاقے (عرب) میں واپس بھیج دیاجائے۔اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتواِن لوگوں کو ہندوستان میں کمین یاغلام بناکر رکھاجائے‘‘۔ اور پاکستان کو ایک دیوانے کا خواب کہنے ،اور سکھ رہنما کرتار سنگھ کے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر اپنی کرپان کوہوا میں لہرا کر یہ علان کرنے کہ ’’جوپاکستان بنانے کانام لے گا میری یہ کرپان اس کا حشر نشر کرے گی‘‘ اور اس جیسے بے شمار مطالبوں اور دعووں کے باوجود جب لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر مسلمانانِ ہند نے قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان بنالیا تو یہ ہندوؤں کی جان کا روگ بن گیا۔یہ ان کے دل میں اُترنے والا وہ خنجر ہے، جس کے صدمے اور تکلیف نے ہندو کو اب تک ہلکان کررکھاہے ۔ ہندو نے پاکستان کو کبھی قبول نہیں کیا۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرونے تو حلف اُٹھانے کے بعد 15اگست 1947ء کو آزاد ی کے پہلے ہی دن ہندوستانی قوم کو خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیاکہ ’’پاکستان میں رہ جانے والے ہندو خاطر جمع رکھیں ۔یہ تقسیم عارضی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جلد یابدیر سب ہندوایک بار پھر ایک ہی مادرِ وطن کے سائے تلے اکٹھے ہوجائیں گے۔‘‘ اور پھر ہندواور ہندوستان پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہوگئے اور اِس کے لئے ہر ہر حربہ استعال کیاجانے لگا، جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں کہ یہ آج کے مضمو ن کا اصل موضوع نہیں۔
جلد ہی ہندوستان کا صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا۔ اُس نے کشمیر میں پچھلے اٹھارہ برسوں سے لڑی جانے والی مجاہدین کی جنگِ آزادی کی پشت پناہی کا الزام لگاکر پوری تیاری کے ساتھ چھ ستمبر 1965ء کو اچانک رات کی تاریکی میں مغربی پاکستان پر لاہور کی طرف سے حملہ کر دیا اور پھر اسے پھیلاکر قصور اور سیالکوٹ کی سرحدوں تک لے گیا۔تیاری اور عزائم یہ تھے کہ چھ ستمبر کی شام کی چائے ہندوستانی جنرل لاہور جم خانہ میں پئیں گے، لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ انہوں نے کس قوم کو للکاراہے ۔ پاکستانی فوج اور عوام ہڑبڑا کر اُٹھے ۔ ایک چھوٹے سے پاکستانی دستے نے میجر عزیز بھٹی کی سرکردگی میں ہندوستانی فوج کے ایک بریگیڈ کو بی آر بی نہر کے پار روک دیااورپھر شجاعت کی وہ داستانیں رقم کیں کہ ملٹری ہسٹری اس قسم کی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ ایک ڈیڑھ دن کے اندر پاکستانی افواج نے لاہور ،قصور اور سیالکوٹ تینوں محاذِ جنگ کو مضبوطی سے سنبھال لیا۔ قصورکے محاذ پر تو پاکستانی افواج ہندوستان میں کئی میل اندر تک گھس گئیں۔ لاہور کے محاذ پر دشمن فوج اپنی پوری طاقت اور کوشش کے باوجود بی آ ر بی نہر کو پار نہ کر سکی ۔ سیالکوٹ میں چونڈہ کے محاذ پر جنگِ عظیم دوم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی جہاں لڑنے والے ٹینکوں کا تناسب ایک اور بیس کا تھا ۔ پاکستانی فوج کے بہادر جوان اپنے جسم سے بم باندھ کر ہندوستانی ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے اور یوں اُن کی پیش قدمی روکی۔ اس دوران پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے وہ وہ محیرالعقول کارنامے سرانجام دیئے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ آج خود بھارت کی ایئر فورس اکیڈمی میں پاکستانی پائلٹوں کورو ل ماڈل اور ان کے فضائی آپریشنز کو بطور کیس سٹڈی پڑھایاجاتاہے ۔ اس جنگ میں میجر عزیز بھٹی شہید کو لاہور کے محاذ پر بے مثال بہادری اورجرأت کا مظاہرہ کرنے پر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ دیاگیا۔ اس جنگ میں مسلح افواج کے کسی بھی شعبے یاونگ کاکوئی بھی افسر جہاں بھی لڑرہاتھا ،اپنی طاقت ، وسائل اور کال آف ڈیوٹی سے کہیں بڑھ کر لڑا۔
ایک طرف اگر پاکستان کی مسلح افواج مختلف محاذوں پر دفاعِ پاکستان کی جنگ لڑ رہی تھیں تو دوسری طرف پاکستان کا بچہ بچہ اپنے وطنِ عزیز کے لئے اُ ٹھ کھڑا ہوا۔ پاکستانی قوم نے بغیر کسی کے کہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے اپنے شوق ، اپنی اپنی مہارت اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کام سنبھال لئے۔احمد ندیم قاسمی، منیرنیازی، قتیل شفائی ، حبیب جالب، صوفی غلا م مصطفی تبسم اور اُن جیسے دیگر ادیبوں اور شاعروں نے ولولہ انگیز مضامین ،نظمیں اور ترانے لکھنے شروع کردیئے ۔ مہدی حسن ، اُستاد امانت علی، سلیم رضا، منیرحسین، عنایت حسین بھٹی ، نورجہاں، نسیم بیگم ، مالہ بیگم جیسے گلوکار اور گلوکارائیں جن سے فلمی گیت گوانے کے لئے اِن کے پیچھے پیچھے پھِرناپڑتاتھا خود چل کر ریڈیواور ٹی وی سٹیشنوں پر پہنچنا شروع ہوگئے کہ وہ وطن کے لئے گانا چاہتے ہیں ۔ خورشید انور، ماسٹر عنائیت حسین، رشید عطرے ، جی اے چشتی اور ان جیسے دیگر فلمی ، ریڈیواور ٹیلی ویژن کے موسیقاروں نے ان نغموں اور ترانوں کی دُھنیں بنانااور گلوکاروں نے انہیں گاناشروع کردیا۔ ہم آہنگی اور جذبے کا یہ عالم تھا کہ کہاں ایک فلمی گانا ہفتوں، بلکہ مہینوں میں تیارہوتاتھا اور کہاں ایک ایک د ن میں کئی کئی نغمے ریکارڈ ہورہے تھے۔ صبح ترانہ لکھاجاتا،دُھن بنائی جاتی،گلوکار اُسے گاتا،ریکارڈ کیا جاتا اور شام تک وہ ریڈیو یاٹی وی پر نشر ہوجاتا۔ اِن ترانوں اور نغموں نے محاذِ جنگ پر لڑنے والے فوجیوں کے جذبوں اورولولوں کو تیز تر کیا۔ضلعی انتظامیہ ،پولیس، ڈاکٹروں ، نرسوں ، اساتذہ، طلباء اور خصوصاً سول ڈیفنس کے رضاکاروں اور سکاؤٹس نے اپنے اپنے محاذ سنبھال لئے ۔ صدر ایوب خان نے قوم سے ’’دفاعی فنڈ ‘‘ کی اپیل کردی ۔ پھر کیا تھا۔ وہ لوگ جن کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ مُلک کی بقا ء کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں کس طر ح اپنا حصہ ڈالیں، انہوں نے اپنی جیبیں خالی کردیں۔خواتین نے اپنے زیور ، بیٹیوں کے لئے بنائے گئے جہیز ، بُرے وقتوں کے لئے کی گئی بچتیں ، طالبعلموں نے اپنے جیب خرچ، ملازم پیشہ لوگوں نے کہیں آدھی آدھی اور کہیں پُوری پوری تنخواہ ، کاروباری حضرات نے اپنے اثاثے ، غرض جس کے پاس جوکچھ تھا اُس نے اُس کا وافر سے بھی کہیں زیادہ حصہ دفاعی فنڈ میں دے دیا۔
صدرایوب خان نے ایک خوبصورت نعرہ دیا ’’ایک پیسے میں دوٹینک‘‘، یعنی اگر پاکستانی قوم کا ہرفرد ہر روز ایک پیسہ دفاعی فنڈ میں دے تو ایک دن کے پیسوں سے دوٹینک خریدے جاسکتے ہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر کی دوکانوں ،کاروباری اداروں، سکولوں ،کالجوں،پارکوں اور مساجد کے باہر’’ ایک پیسے میں دو ٹینک‘‘ کا سٹیکر لگے بکس رکھ دیئے گئے، جو دن میں کئی بار بھرتے اور خالی کئے جاتے۔ پاکستانی فوج سے والہانہ محبت کا یہ عالم تھا کہ جب مختلف محاذوں پر جانے کے لئے فوجی دستے شاہراہوں اورشہروں میں سے گزرتے تو سار ا شہر سڑکوں پر اُمڈ آتا اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’پاک فوج زندہ باد‘‘ کے نعروں کی گونج میں اُن دستوں کو گزارتا۔ لوگ ہاتھوں میں مشروبات کی بوتلیں، پھل اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں لئے کھڑے ہوتے اور گاڑیوں کو روک روک کر یہ چیزیں فوجی جوانوں کو زبردستی تھماتے ۔ حکومت کی طرف سے علان ہوا کہ دشمن کی طرف سے رات کو شہروں میں فوجی اور سول علاقوں پر جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری اور چھاتہ بردار فوج اُتارنے کا خطرہ ہے ،لہٰذا رات کو مکمل بلیک آؤٹ کیاجائے اور چھاتہ برداروں کو پکڑنے کے لئے رات کو جاگ کر پہرے دیئے جائیں۔ پھرکیاتھا ! پاکستانیوں نے ایسی بلیک آؤٹ کی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتاتھا ۔ کسی کے گھر سے موم بتی جلنے کی روشنی بھی نظر آتی تو محلے والے جاکر گُل کروادیتے ۔ چھاتہ برداروں کو پکڑنے کے لئے بچے سے لے کر بوڑھے تک ، ڈنڈا، سریا، چاقو، چُھری ، بندوق، غرض جس کوجو میسر آیا لے کر گلیوں ،میدانوں، کھیتوں اور ویرانوں میں ساری ساری رات گشت کرنے لگ گئے ۔ کوئی سوتانہیں تھا ۔ ہر ایک کا دل مچلتا تھا کہ کاش کوئی چھاتہ برداراُس کے سامنے اُترے اور وہ اُس کو جاپکڑے ۔بھلا ایسی فوج اور ایسی عوام کے سامنے دشمن کب تک ٹھہر سکتاتھا۔ ہندوستان نے گھٹنے ٹیک دیئے ۔ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا خواب دیکھنے والا ہندوستان فائر بندی کے لئے اقوا م متحدہ کی منتیں کرنے لگا۔ چشمِ فلک نے حکومت، فوج اور عوام کے درمیان اس قسم کی فقیدالمثال ہم آہنگی، یک جہتی ،جوش و ولولہ اور ایثار وقربانی اس سے قبل شاید کبھی نہ دیکھی ہو گی ۔ اِس دوران مُلک بھر میں خصوصاً مغربی پاکستان میں شاید ہی کوئی قتل،اغوا،چوری ،راہزنی یا ڈکیتی کی واردات ہوئی ہو۔ جنگِ ستمبر کے سترہ دن پاکستان کی تاریخ کا وہ شاندار باب ہے، جس پر پوری پاکستانی قوم ہمیشہ فخر کرسکتی ہے۔
جنگِ ستمبر کے بعد بہت سے ماہ و سال بیت گئے۔ اِس جنگ کو دیکھنے والوں کی ایک آدھ سال قبل تک یہ حسرت ہی رہی کہ وہ پاکستانی عوام میں اُسی طرح کی یکجہتی، ہم آہنگی ، مقصد کے حصول کے لئے یکسوئی اور افواج پاکستان کیلئے اُسی طرح کی محبت اور فخر دوبارہ دیکھیں جیسی انہوں نے جنگِ ستمبر کے دوران دیکھی تھی، لیکن خوش نصیب ہیں وہ جوآج زندہ ہیں اور ایک بار پھر پاکستانی قوم کے قلب ونظر میں پاکستان کی مسلح افواج کے بارے میں وہی محبت ،وارفتگی اور احترام دیکھ رہے ہیں جو اُنہوں نے جنگِ ستمبر کے دوران دیکھاتھا اور آج ایک بار پھرپاکستانی قوم اُسی یکجہتی اور ہم آہنگی اور یکسوئی کیساتھ مسلح افواج کی پشت پر کھڑی ہے جیسی جنگِ ستمبر کے دوران کھڑی تھی۔ یہ عزت اور احترام پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی حُسنِ نیت ، حُسنِ عمل اور حُسنِ کارکردگی سے جیتاہے ۔آج ایک بارپھر تمام پاکستانی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ہندوستان ہمیشہ کی طرح پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لئے چند دیگر طاقتوں کی آشیرباد کے ساتھ پاکستان پر اندرونی اور بیرونی دونوں سمتوں سے حملہ آور ہے ، لیکن پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے جس طرح پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی گردن ناپی ہے اس سے ہندوستان کے خواب بکھر کر رہ گئے ہیں۔ وہ بُری طرح پیچ وتاب کھارہاہے ۔ خیبر پختونخوا، قبائلی علاقہ جات ، بلوچستان اور کراچی میں اپنے مُہروں اور عزائم کی تباہی وبربادی ، دہشت گردوں کاخاتمہ اور پاکستان کے اندر امن وامان کی بحالی اُس سے کسی طرح برداشت نہیں ہورہی، اور وہ جانتا ہے کہ اس سب کے پیچھے پاکستان کی مسلح افواج ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنرل راحیل شریف کی طرف سے اس بات کا بار بار اعادہ کہ ’’ پاکستان چائنہ معاشی راہگذر‘‘کے منصوبے کی ہر طرح رکھوالی کی جائے گی، ہندوستان کے لئے سوہانِ روح بناہواہے ۔
پاکستانی عوام کے لئے یہ امر کس قدر باعثِ اطمینان ہے کہ 6 ستمبر 1965ء کے ٹھیک پچاس سال بعد آج چھ ستمبر 2015ء کو ایک بار پھر پاکستان کے عوام ، پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستا ن کی حکومت، پاکستان کی حفاظت ،سا لمیت ، قیامِ امن اور کرپشن سے پاک پاکستان کے لئے ہم خیال ، ہم آہنگ اور ہم رکاب ہیں ۔ ستمبر 1965ء کی طرح آج ایک بار پھر پاکستان کے عوام کی تمام تر اُمیدوں کا محورومرکز پاکستان کی مسلح افوا ج ہیں۔ وہ اُن کے لئے دُعا گو بھی ہے اور اُن کے پشت پناہ بھی کہ آج اُن ہی کی بدولت پاکستانی قوم چھ ستمبر 2015ء (یومِ دفاعِ پاکستان) اُسی جذبہ ،جوش، اطمینان اور احساسِ فخروتشکر کے ساتھ منا رہی ہے، جس طرح اُس نے جنگِ ستمبر1965ء کے17 دن گزارے تھے۔ اللہ تعالی ہماری مسلح افواج بالخصوص جنرل راحیل شریف کوزندہ وجاوید اور شادمان وکامران رکھے کہ اس وقت صرف وہی پاکستان کی شان اور آن ہیں ۔