پاکستانی امراء کی عبرت کے لئے ایک ایرانی ارب پتی کا پیغام

پاکستانی امراء کی عبرت کے لئے ایک ایرانی ارب پتی کا پیغام
پاکستانی امراء کی عبرت کے لئے ایک ایرانی ارب پتی کا پیغام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ تیس جون1987ء کی بات ہے ۔ میں نے امریکہ میں دی یونیورسٹی آف آیووا سے ڈی ایس سی میں ایم ایس کی ڈگری مکمل کر نے کے بعد ایشیا فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایشین سکالرز کی ایک ٹیم کے ہمراہ نیویارک، واشنگٹن اور فلاڈلفیا وغیرہ کا پندرہ روزہ بھرپور دورہ مکمل کرلیا تھا۔ اس ٹور کے دوران ہمیں مختلف یونیورسٹیوں ، تھنک ٹینکس کے سیمینارز، یواین او کے دفاتر، سٹیچوآف لبرٹی، لائبریری آف کانگرس، امریکن سیکورٹی کونسل ، اور پینٹاگون کے بہت بڑے بڑے افسروں ، وائٹ ہاؤس، امریکی سینٹرز، وزارت تجارت کے بڑے افسروں سے ملاقات اور امریکی آئین کی دو سو سالہ تقریبات میں شرکت ا ور امریکی جنگ آزادی کے میوزیمز اور اہم مقامات دیکھنے کا موقع ملا۔ پندرہ روزہ دورہ مکمل کرنے والی اس ٹیم میں میرے علاوہ چینی وزارت خارجہ کے چار افسر، جنوبی کوریا کے ایک میجر، تھائی لینڈ کی ایک پی ایچ ڈی سکالر اور انڈونیشیا کا ایک صحافی شریک تھے۔ دی یونیورسٹی آف آیووا ، پچاس ہزار کی آبادی کے چھوٹے سے شہر آیووا سٹی میں ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ چھوڑنے سے پہلے مجھے یہاں بڑے شہروں اور امریکہ کے بڑے لوگوں سے ملنے اور ان سے تبادلہ خیال کا یہ بھرپور موقع ملا تھا۔ پندرہ جون کو شروع ہونے والایہ دورہ مکمل ہونے کے بعد 30 جون کو واشگنٹن ڈی سی سے ہی بذریعہ نیویارک میری پاکستان کے لئے واپسی تھی۔ نیویارک سے زیورخ (سوئٹزر لینڈ) اور وہاں سے کراچی اور پھر لاہور کی فلائٹ لینا تھی ۔ اس وقت میں واشنگٹن سے نیویارک پہنچنے کے بعد ائیر پورٹ کے لاؤنج میں ز یورخ جانے والی فلائٹ کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ایک فلائٹ کے بعد کسی ائیر پورٹ سے کوئی دوسری فلائٹ لینا ہو تو اس میں اکثر دو تین گھنٹے کا وقفہ پڑ جاتا ہے۔ لیکن اس وقت اتفاق سے اس وقفے کے علاوہ یہ معلوم ہوا کہ نیویارک سے چلنے والی فلائٹ بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر تین گھنٹے تاخیر سے جارہی ہے۔ اس طرح گویا چھ گھنٹے نیویارک ائیر پورٹ پر گذارنے تھے جس کے بعد آگے کے سفر میں پندرہ سولہ گھنٹے الگ صرف ہونے تھے۔ کسی مصروفیت کے بغیر ایسا طویل انتظار کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ انتظار ۔ انتظار اور انتظار ۔ اس کیفیت سے دو چار میرے سامنے کچھ فاصلے پر بیٹھے ہوئے بہت معزز قسم کے ایک صاحب بھی تھے، جو کبھی ائیر پورٹ کی چھت کو گھورنے لگتے کبھی ارد گرد کا جائزہ لیتے کبھی ائیر پورٹ کے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھنے لگتے اور کبھی آنکھیں بند کرکے انتظار کی تلخی کم کرنے کی کوشش کرتے ۔ ایک موقع پر انہوں نے میری طرف دیکھا ، میں نے بھی ان کا بغور جائزہ لیا ، وہ صاحب اٹھ کر میرے ساتھ والی سیٹ پر آکر بیٹھ گئے ۔ مجھ سے انگریزی میں پوچھا : کیا آپ ایران سے ہیں؟ میں نے کہا جی میں پاکستان سے ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا : السلام علیکم ! آپ تو ہمارے برادر ملک سے ہیں۔ کیا آپ پاکستان واپس جارہے ہیں؟ جی میں نے کہا یہاں دو سال تک اپنی تعلیم کے سلسلے میں قیام کے بعد آج یہ میرا یہاں آخری دن ہے ، لیکن اتفاق سے یہ آخری دن کافی تلخ ثابت ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا خیر ہم آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ آپ واپس جا کر کیا کریں گے:؟ میں نے بتایا کہ میں وہاں پنجاب یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن اورجرنلزم پڑھاتا ہوں۔


انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کا خاندان شاہ ایران کے آخری دنوں میں امریکہ آگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ شاہ ایران کی حکومت میں ایک بہت اہم عہدہ پر فائز تھے ، اگر وہ مجھے اپنا نام بتائیں تو میں یقیناًاس نام سے ان کو پہچان جاؤں گا لیکن وہ سیکورٹی وجوہ کی بنا پر اپنا نام ظاہر نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی زیورخ جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں نے زیورخ سے جہاز بدلنا ہے ، کیا وہ بھی وہاں سے جہاز بدلیں گے ؟ انہوں نے کہا : نہیں وہ صرف زیورخ جارہے ہیں ، انہوں نے مجھ سے میرے اورپاکستان کے متعلق بہت سے سوالات پوچھے۔ میں نے بھی ان سے زیورخ جانے کی وجہ دریافت کی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ وہاں کے بنکوں میں جمع اپنی رقم کے سلسلے میں جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شاہ ایران کی فیملی اور قریبی لوگوں نے اربوں کھربوں ڈالرز سوئٹزر لینڈ اور امریکی بنکوں میں جمع کرارکھے تھے ، وہاں متشدد قسم کے مذہبی لوگوں کی ایسی حکومت آئی کہ ان لوگوں نے شاہ کے خاندان اور حامی لاکھوں لوگوں اور ان کے پورے کے پورے خاندانوں کو قتل کردیا۔ ان خاندانوں کے جو کھربوں ڈالرز بیرونی ملکوں میں جع تھے ان کا دعوے دار بھی کوئی نہیں بچا۔ ان ملکوں کے بنکوں نے ایرانی سرمایہ سے بہت بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں قائم کر لیں ، جبکہ ہمارے ملک کے اپنے غریب اور مفلس عوام اس سب مال و دولت سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ان جیسے جن لوگوں کے پیسے ان ملکوں میں تھے انہیں بھی ان کی رقوم واپس کرنے میں یہ پس و پیش سے کام لے رہے ہیں ۔ اسی سال کے دوران یہ ان کا سوئٹزر لینڈ کا پانچوان سفر ہے لیکن ابھی تک ان کے بنک کی طرف سے ان کی رقم واپس کرنے کے سلسلے میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں یہاں کے بڑے بڑے وکلاء کو لمبی چوڑی فیسیں دینے کے باوجود دور نہیں ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہاں کے بار بار چکر لگا کر تنگ آچکے ہیں ۔ اب سوچتے ہیں کہ کاش ان کے ملک کے امیروں نے اپنے ملک سے حاصل کی ہوئی تمام دولت اپنے ہی ملک میں رکھی ہوتی ۔ اگر ضبط بھی ہوجاتی تو کم از کم وہ اپنے ملک کے غریبوں کی بہتری کے لئے استعمال ہوسکتی۔ اس طرح کی باتوں میں وقت گذر گیا ، بالآخر ہم جہاز پر سوار ہوئے اور زیورخ پہنچ گئے۔ کسی بھی ملک کی ائیر پور ٹ پر اس ملک کی اپنی ائیر لائنز کے جہاز سب سے زیادہ نظر آتے ہیں ۔ زیورخ کی ائر پورٹ پر بھی قطار اندر قطارً سوئس ائیرً کے جہاز بیسیوں کی تعداد میں کھڑے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ نیویارک سے آنے والے یہ معزز ایرانی ان جہازوں کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی سانسیں لے رہے ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کیا آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ؟انہوں نے کہا نہیں ۔ سچ پوچھیں تو میں جب بھی ان کے ائیر پورٹ پر ان جہازوں کو جن کے دم پر ریڈ کراس کانشان ہوتا ہے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے دیکھتا ہوں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ، انہوں نے یہ سب ہماری دولت سے بنایا ہے۔ ا س کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کا تعلق صحافت سے ہے ، آپ سے میری یہ درخواست ہے کہ آپ ہر ممکن اپنے ملک کے امراء تک یہ حقیقت پہنچائیں کہ وہ غیر ملکی بنکوں کے جال میں نہ پھنسیں یہ بنک اس مقصد کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں کہ باہر سے آئی ہوئی ودلت کسی بھی طرح واپس نہ جاسکے ۔ البتہ یہ اپنے ہاں نوجوان لڑکیوں ، شراب اور جوا ء جیسی سہولتیں ہمارے امراء کو مہیا کرکے بہانے بہانے سے ان کی دولت لوٹنے کا انتظام کرتے ہیں، اور ہمارے لوگ انہی کی دنیا کو جنت تصور کرلیتے ہیں ، جبکہ جنت تو صرف اپنا وطن ہوتا ہے جس میں اپنے خاندان ، رشتہ داروں اور قبیلے کے لوگوں کے علاوہ دنیا میں آپ سے یکساں اور مشترکہ مفادات رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ آپ براہ مہر بانی میرا پیغام کسی نہ کسی طرح پاکستا ن کے امراء تک ضرور پہنچائیں کہ وہ اپنی دولت ہر حال میں اپنے ملک میں رکھیں، اگر وہ وہاں چھینی بھی گئی تو ہزار طریقے سے بالواسطہ طور پر آپ کے وطن کے غریب لوگوں ہی کے کام آئے گی ۔ ان کے لئے روزگار کا انتظام ہوگا، کئی طرح کے ترقیاتی اور صنعتی منصوبے شروع ہوسکیں گے، اور وہاں کوئی بھوکا اور غریب نہیں رہے گا۔ لیکن یہ ظالم اقوام آپ کے لئے آپ کے بچوں اور آپ کے ہم نسلوں کے لئے کسی طرح بھی ہمدردی کے جذبات نہیں رکھتیں ۔ ان کے پیش نظر صرف اور صرف اپنی قوم کا فائدہ ہی رہتا ہے ، جس کے لئے ضرورت کے وقت وہ ہمارے امراء اور اہل اقتدار سے بہت چاپلوسی سے بھی پیش آتے ہیں لیکن جب ان کو ضرورت نہ رہے تو یہ انہیں آنکھیں دکھاتے اور طرح طرح سے بلیک میل کرتے ہیں۔ ایران میرا وطن ہے میری ساری ہمدردیاں اور محبتیں ایران سے ہیں ، میرے خاندان اور قبیلے کے بہت سے لوگ اب بھی ایران میں ہیں لیکن میں اس ملک میں خوار ہورہا ہوں ، میں نے اپنی دولت سوئٹزر لیند کے بنکوں میں نہ رکھی ہوتی تو مجھے ایران سے باہر آنے کاخیال بھی نہیں آنا تھا ، یہ دولت مجھے اپنوں سے دور لے آئی ، میں نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا۔ خیر ہمارے ساتھ جو ہوا سو ہوا ، لیکن آپ ہماری یہ کہانی اپنے لوگوں اور بالخصوص امراء تک ضرور پہنچا دیں تاکہ وہ اپنے ملک کی دولت سے ہر صورت اپنے ہی ملک کے عوام کو فائدہ پہنچائیں۔ ہماری نسلیں، ہمارا اپنی دھرتی سے تعلق اور ہماری روح کی گہری وابستگی سب کچھ اپنے وطن سے ہے ، آپ بیرون ملک بیٹھے اپنے وطن کے کسی امیر سے امیر انسان سے بھی پوچھ کر دیکھ لیں اس کی روح اپنے وطن کے لئے پھڑک رہی ہے اپنے قبیلے اور اپنی نسل کے لوگوں کے اندر جا کر رہنا بسنا چاہتی ہے ، لیکن وہ خود پر ایک عجیب طرح کا مصنوعی پن اور غیر حقیقی رویہ طاری کرکے یہاں زندگی بسر کررہا ہے لیکن اس کی حقیقت اس درخت سے مختلف نہیں جس کی جڑیں زمین سے کاٹ دی گئی ہوں اور وہ محض کھوکھلا اور مرجھایا ہوا زمین کے اوپر کھڑا ہو۔ یہ کہتے ہوئے ایران کے یہ معزز صاحب بہت جذباتی ہورہے تھے ، انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ اب ہم صرف اپنے ہم وطنوں اور دوسرے مسلم بھائیوں کو اپنی عبرت بھری داستان ہی سنا سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم اپنی قوم کو یہ سب بتانے کا کام ضرور کرو گے ۔


قارئین ! میں بھی اپنے ہم وطنوں کی طرح کافی کوتاہ اندیش ہوں لیکن میں نے اپنی واپسی کے جلد ہی بعد یہ پیغام قومی اخبارات اور اپنی کتاب ’’امریکہ نامہ‘‘ کے ذریعے پاکستانی عوام تک پہنچا دیا تھا ، آج پھر اسے دہرا رہا ہوں ، شاید یہ چند الفاظ او نچے مقام لیکن نیچی سوچ والے لوگوں کی سوچ بدلنے میں کسی طرح کوئی کام کرسکیں۔

مزید :

کالم -