اور اب مردم شماری نامنظور!
وطن عزیز میں 19سال کے بعد ہونے والی خانہ شماری اور مردم شماری کے نتائج چند روز قبل سامنے آگئے، جس کے مطابق پاکستان میں گھرانوں کی تعداد 3کروڑ 22لاکھ ہے اور آبادی 20کروڑ 77لاکھ 74ہزار520افراد پر مشتمل ہے۔ اس گنتی میں گلگت بلتستان کی آبادی کا شمار نہیں ہے۔
محکمہ شماریات حکومت پاکستان کے مطابق 64فیصد آبادی دیہات اور 36فیصد شہروں میں مقیم ہے۔ ملک کی 20فیصد آبادی 10بڑے شہروں کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، پشاور، ملتان، حیدر آباد، اسلام آباد اور کوئٹہ میں آباد ہے۔ کل آبادی میں سے مردوں کی تعداد 10کروڑ 65لاکھ اور 10کروڑ 13لاکھ خواتین ہیں سابقہ 19سالوں میں یعنی 1998ء سے 2017ء کے درمیان شہری آبادی 2کروڑ 40لاکھ سے بڑھ کر 4کروڑ 10لاکھ تک ہوگئی، اس میں دیہی آبادی کا انخلا ہوا اور لوگوں کا رجحان بہتر سہولتوں کے لئے شہروں کی طرف بڑھا، جس سے شہری مسائل میں اضافہ ہوا۔
پنجاب میں سندھ کے مقابلے میں دیہی آبادی کا شہروں کی طرف انخلا قدرے کم رہا، شاید اس لئے کہ سندھ میں دیہی زندگی کے حالات بہت ہی ابتر ہیں۔ پنجاب میں شہری آبادی 4کروڑ ہے اور دیہی آبادی کا تخمینہ 7کروڑ سے اوپر ہے اور پنجاب میں گروتھ ریٹ 2.13ہے، جبکہ اس کے برعکس سندھ کا برتھ ریٹ 2.41 ہے، سندھ میں شہری آبادی 52 فیصد اور دیہی آبادی 48 فیصد شاید اسی لئے ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مردم شماری پر واویلا شروع کردیا ہے، کیونکہ آئندہ کے الیکشن ہمیشہ کی طرح آبادی کی بنیاد پر ہی ہوں گے، جس میں شاید کچھ لوگوں کی سیٹیں کم یا زیادہ ہو جائیں گی۔
1947ء میں پاکستان بننے کے بعد ملک عزیز میں پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی، اس کے بعد 1961ء میں 1972ء 1981ء اور آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی۔ 1960ء اور 1990ء کے درمیان ملکی آبادی کا گروتھ ریٹ 3.1/3.2 تھا جو کہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کم ہو کر 2.4رہ گیا ہے، جو نیک شگون لیکن اس کو مزید کم ہونا چاہئے۔
دنیا کے ہر مہذب ملک میں ہر دس سال بعد خانہ شماری اور مردم شماری ہوتی ہے۔ ملک عزیز میں بھی قانوناً ہر دس سال بعد مردم شماری ہونی چاہئے تاکہ آبادی کی بنیاد پر وسائل اور مسائل کا اندازہ ہوسکے اور ملکی پالیسیاں مرتب کی جاسکیں اگر آپ اپنے آپ کو گن ہی نہیں سکیں گے، تو آپ کیسے اندازہ لگائیں گے کہ ہم کتنے لوگ ہیں اور وسائل کیسے استعمال کرنے ہیں۔ 1998ء کے بعد 2008ء میں مردم شماری ہونی چاہئے تھی۔ ملک میں نام نہاد جمہوریت بھی قائم تھی۔ ساری سیاسی جماعتیں بھی حکومتوں میں تھیں، لیکن اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کسی نے بھی مردم شماری کی طرف توجہ نہ دی ہر سال امن و امان یا کوئی اور وجوہ بنا کر ٹال مٹول سے کام چلاتی رہیں۔ سابقہ بلدیاتی انتخاب کی طرح2017ء کی مردم شماری بھی سپریم کورٹ کے حکم پر ان حکمرانوں کو بادل نخواستہ کروانی پڑی۔ 3لاکھ سول اہلکاروں اور 2لاکھ فوجی جوانوں اور افسروں نے یہ کام مکمل کیا اور اس عمل میں بہت ساری جانوں کا نقصان بھی ہوا۔
اب جبکہ 19سال بعد خانہ شماری اور مردم شماری کا کام مکمل ہوگیا ہے، تو حکومت سندھ اور ایم کیو ایم نے شورمچانا شروع کردیا ہے کہ ہم مردم شماری کے نتائج کو نہیں مانتے۔ سندھ میں سابقہ 9سال سے حکومت پی پی پی کی ہے، سابقہ 35سال سے ایم کیو ایم کراچی حیدر آباد اور سکھر کی بے تاج بادشاہ رہے ۔ ارے بھائی جب مردم شماری ہو رہی تھی، تو آپ لوگ کہاں تھے، اگر اب بھی ان پارٹیوں کے پاس کوئی ایسے ثبوت ہیں تو سامنے لائیں، میں نہ مانوں کی رٹ لگانے سے اب کچھ نہیں ہوگا۔اب شاید وہ زمانہ نہیں ہے، جب خود ہی کراچی میں قتل عام کرواتے تھے اور خود ہی لندن کی ایک کال پر کراچی بند کروادیتے تھے، اب شاید بھتہ خوری، قتل و غارت گردی، منی لانڈرنگ، جلاؤ گھیراؤ اور بلیک میلنگ کا زمانہ قصہ پارینہ بن چکا۔ اب حساب کتاب،احتساب، جے آئی ٹی کا زمانہ آگیا ہے، اب آپ اپنے آپ کو اس امتحان کے لئے تیار کریں، کیونکہ سو دن چور دا تے اک دن سعد دا۔