جامع مذاکرات کی افغان پیش کش

جامع مذاکرات کی افغان پیش کش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کشیدگی ختم کرنے کے لئے باضابطہ مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان سے جامع مذاکرات کے لئے تیار ہیں ان کا کہنا تھا پاکستان کے ساتھ امن افغانستان کا قومی ایجنڈا ہے ایک ایسا امن جس کی بنیاد سیاسی نظریہ ہو خطے کی سلامتی کی خاطر ہم منطق اور استدلال کے تحت ہر قدم اٹھانے کے لئے تیار ہیں انہوں نے باغیوں اور جنگجوؤں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ امن عمل کا حصہ بن جائیں اگر وہ افغان ہیں اور کسی دوسرے کے آلہ کار نہیں ہیں تو پھر وہ امن کے راستے کا انتخاب کریں میں سب کی طرف امن کا ہاتھ بڑھارہا ہوں اور کہتا ہوں کہ امن خدا کا حکم ہے وہ عیدالاضحی کے موقع پر افغان صدارتی محل میں خطاب کررہے تھے۔
صدر اشرف غنی نے پاکستان کو امن کے لئے جامع مذاکرات کی جو پیش کش کی ہے اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے اداروں کو آغاز کردینا چاہئے، پہلے تو جامع مذاکرات کی وسعت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کن کن علاقوں اور شعبوں کو محیط ہوگا موضوعات کا تعین کرکے تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ فوری طور پر امن کا قیام دونوں ملکوں کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے افغانستان میں امن و استحکام کا فائدہ نہ صرف افغانستان کو ہوگا بلکہ یہ پاکستان کے حق میں بھی مفید ہے، یہ بات ماضی میں کئی بار پاکستان کے مختلف حکمران اور عسکری قائدین کہہ چکے ہیں اور موجودہ قیادت بھی اس کا اعادہ کرتی رہتی ہے لیکن مقام افسوس و حیرت ہے کہ دونوں طرف امن کی خواہش تو موجود ہے جس کا اظہار افغان حکمران بھی کرتے ہیں تو پھر سوچنے اور دیکھنے کی اصل ضرورت یہ ہے آخر خرابی کہاں ہے کہ عملاً ایسا ممکن نہیں ہوپا رہا۔محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں بعض ایسے عناصر حکومت کے اندر اور باہر ضرورموجود ہیں جو حامد کرزئی کی حکومت میں تھے اور اب بھی ہیں جو اپنے صدور کی خواہش کو عمل کا جامہ نہیں پہننے دیتے اور یہ نیک خواہشات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں، افغان سرزمین پر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جنہوں نے پاکستان کے مختلف آپریشنوں کے دوران وہاں پناہ حاصل کرلی اور اب وہ کسی نہ کسی انداز میں پاکستان کے اندر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں، پاکستان کئی بار افغانستان سے کہہ چکا ہے کہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرے لیکن بوجوہ ایسا ممکن نہیں ہوا اپنے طور پر پاکستان نے سرحد پر حفاظتی اقدامات شروع کررکھے ہیں ایک توسرحد پر لوگوں کی آمدورفت کو دستاویزی بنادیا گیا ہے اس سے پہلے ویزے کے بغیر بھی لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی جواب ممکن نہیں رہی، مزید براں غیر روایتی راستوں سے غیر قانونی آمدورفت ناممکن بنانے کے لئے طویل سرحد پر باڑ بھی لگادی گئی ہے اور پاکستان نے افغانستان کو بھی پیش کش کی ہے کہ افغانستان کی جانب بھی باڑ لگائی جاسکتی ہے امید ہے کہ حکام اس سلسلے میں مثبت جواب دیں گے۔
سرحد کے قریبی علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی دوسرا آپشن ہے جو دونوں ملکوں کو مل کر کرنی چاہئے کیونکہ سرحدی علاقے کچھ اس طرح باہم پیوست ہیں کہ کارروائی کے دوران ایک دوسرے ملک کے علاقوں میں آنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے اس لئے یہ آپریشن اگر دونوں ملک مل کر کریں تو کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں جس کا فائدہ بھی دونوں ملکوں کو ہوگا اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی فضا پر بدگمانی کے جو بادل چھائے رہتے ہیں وہ اگر چھٹ جائیں تو مذاکرات کا آغاز خوش اسلوبی سے ہوسکتا ہے اور اطمینان بخش طریقے سے آگے بڑھ سکتا ہے، جامع مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو بھی وہ عملی اقدامات کئے جاسکتے ہیں جو امن کے قیام میں ممدثابت ہوں۔ ابھی حال ہی میں امریکہ نے اپنی جس افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے اس کے تحت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھائی جائے گی، یہ اقدام امریکی کمانڈروں کے مطالبے پر کیا گیا ہے اس طرح امن کی جانب پیش رفت میں کوئی مدد کس طرح مل سکتی ہے یہ تو امریکی کمانڈر یا صدر ٹرمپ جانتے ہوں گے لیکن صدر اشرف غنی نے افغان جنگجوؤں کو بھی مذاکرات کی جو پیشکش کی ہے اگر یہ بات آگے بڑھتی ہے اور خود امریکہ بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو بالآخر یہیں سے امن عمل کا راستہ نکل سکتا ہے، امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان اگر طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تو وہ مذاکرات کی میز پر آسکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ طالبان پر پاکستان کا ایسا غیر معمولی اثرورسوخ نہیں ہے کہ وہ ان سے ہر بات منواسکے یا ان کی خواہش اور مرضی کے علی الرغم انہیں مذاکرات پر مجبور کرسکے، ماضی میں پاکستان کی مسلسل کوششوں سے طالبان کے ساتھ مذاکرات ضرور شروع ہوگئے تھے لیکن وہ امریکہ کے بعض اقدامات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکے یہ بہت ضروری ہے کہ اگر دوبارہ کسی نہ کسی طرح مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو پھر یہ کوشش کی جائے کہ اعتماد کے اس نازک آبگینے کو ٹوٹنے نہ دیا جائے اور نہ ہی بدگمانی کی کوئی ایسی دراڑ درمیان میں آنے دی جائے جو مذاکرات کو آگے چلنے سے روک دے۔
صدر اشرف غنی نے جامع مذاکرات کی جو پیش کش کی ہے پاکستان کو اس تجویز پر غور کرکے فوری پیش رفت کرنی چاہئے اور سفارتی سطح پر تجویز کو آگے بڑھانے کے لئے اقدامات کا آغاز کردینا چاہئے یہ عین ممکن ہے کہ وہ عناصر جنہیں یہ تجویز پسند نہیں ہوگی اس کے راستے میں روڑے اٹکائیں یا پھر صدر اشرف غنی کو پہلے کی طرح کوئی ایسی پٹی پڑھانے کی کوشش کریں کہ وہ پر اناراگ الاپنے لگیں، افغان صدور پہلے بھی امن کی باتیں کرتے کرتے اور اس سلسلے میں پاکستان کے کردار کو سراہتے سراہتے اچانک ہی پٹٹری سے اُتر جاتے رہے ہیں اور افغان مشکلات کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، یہ بات بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت صدر اشرف غنی کی اس تجویز سے خوش نہیں ہوگا کیونکہ وہ تو خطے میں اپنے لئے اس کردار کا خواب دیکھ رہا ہے جو امریکہ نہ صرف اسے سونپنا چاہتا ہے بلکہ بزعم خویش سونپ بھی چکا ہے اور بھارت کو کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی فوج بھی افغانستان بھیجے اگر افغانستان اور پاکستان مل کر کوئی ایسے اقدامات اٹھالیتے ہیں جو امن کے فروغ میں معاون ثابت ہوں اور دونوں ملکوں میں غلط فہمیاں بھی رفع ہو جائیں تو ایسی فضا میں بھارتی خواب کی تعبیر ملنا مشکل ہے، بھارت تو یہی چاہے گا کہ جس طرح اس نے کشمیر کی کنٹرول لائن پر حالات خراب کررکھے ہیں یا پاکستان کی سرحدپر کشیدگی بڑھا رکھی ہے ایسی ہی صورتِ حال پاک افغان بارڈر پر بھی موجود ہو تاکہ اس کے پردے میں وہ اپنے خفیہ عزائم کی تکمیل کرتا رہے۔ پاکستان کو صدر اشرف غنی کی تجویز اور پیش کش کو آگے بڑھانے کے لئے عملی اقدامات جلد شروع کردینے چاہئیں۔

مزید :

اداریہ -