کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا
عالمی اداہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ 6 کروڑ پاکستانی زہر آلود پانی پینے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے پینے والے پانی کے 1200 نمونوں کو ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں سنکھیا کی مقدار انتہائی زیادہ پائی گئی۔ اس کی کم مقدار بھی انسانی جان کے لئے خطرناک ہے۔
ادارہ کی رپورٹ کے مطابق ایک لٹر پانی میں سنکھیا کی زیادہ سے زیادہ مقدار 10 مائیکرو گرام ہونی چاہئے، لیکن حکومت پاکستان کے مقرر کردہ معیار کے مطابق 50 مائیکرو گرام مقدار بھی قابلِ قبول ہے۔ اس سے زیادہ مقدار کا طویل مدت تک استعمال، مثانے اور جلد کے کینسر، پھیپھڑوں کی بیماری اور دل کے عارضے کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ آپ کو الرٹ کرنے کے لئے یہاں محض چند بیماریوں ہی کا ذکر کیا گیا، اندازہ آپ خود کر لیں کہ زہریلا پانی جسم کے جس حصے سے بھی گزرے گا، وہاں کیا اثرات چھوڑ سکتا ہے۔ سنکھیا ایک بے رنگ اور بے ذائقہ، زہریلا مادہ ہے جو مٹی، ہوا، پانی اور 200 سے زائد معدنیات میں پایا جاتا ہے اور بعض انسانی ایجادات، مثلاً فصلوں پر سپرے کی جانے والی کیڑے مار ادویات کیمیائی اور جوہری ہتھیاروں اور بیٹریوں کے تیزابی محلول میں بھی ہوتا ہے۔ لاہور اور حیدر آباد کے اکثر علاقوں کے پانی میں سنکھیا کی زیادہ مقدار پائی گئی۔ وادئ مہران کے بیشتر علاقوں میں اسی پانی سے کاشت کاری کی جاتی ہے،جو زیر زمین جذب ہو کر کنوؤں کے ذریعے دوبارہ ہمارے جسم کا حصہ بن جاتا ہے۔
یہ رپورٹ دراصل بھیانک منظر کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے۔ اس رپورٹ کے ذریعے یقیناًعوام ہی کو خبردار کیا ہوگا، سرکاری حکام کا تو اس رپورٹ سے کوئی رشتہ واسطہ ہی نہیں۔ وہ عام پانی پیتے ہیں نا عام مریض بن کر یہاں کے ہسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم عوام ہی کی قسمت میں لکھا ہے۔ پانی، بلاشبہ ہماری خوراک کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس کا زہر آلود ہونا کوئی معمولی بات نہیں، لیکن یہ زہریلا پانی ہی کیا، وہ کون سی چیز ہے جو ہمیں خالص مل رہی ہے۔ اگر گوالا آپ کی موجودگی میں بھی گائے یا بھینس کا تازہ دودھ دھو کر دے تو اس پر بھی شک کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ دودھ لینے کے لئے جانوروں کو ٹیکے بھی لگائے جاتے ہیں۔ پھر دیہات سے شہروں کی طرف لایا جانے والا دودھ بھی پہلے بذریعہ سڑک آتا تھا، اب بذریعہ نہر آتا ہے، جن نہروں میں فیکٹریوں، جانوروں اور انسانوں کا ’’گندہ پانی‘‘ ایک ساتھ بہہ رہا ہو، وہ اب نہریں نہیں، گندے نالے بن چکے ہیں۔ دودھ میں نہری پانی ملانے والے سقراط کہتے ہیں، اس سے دودھ گاڑھا ہوتا ہے، وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ اب دودھ اکثر گاڑھا ہی ہوتا ہے۔
ڈبوں میں بند دودھ کو بھی فریج کے بغیر زیادہ دیر محفوظ رکھنے کے لئے اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، اس کے بعد وہ دودھ کہاں رہتا ہے، سفید کیمیائی محلول بن جاتا ہے۔ گزشتہ سال سپریم کورٹ اور قومی اسمبلی میں بھی اس بات کی توثیق کی گئی اور اس برس تو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ڈبوں میں بند کوئی بھی ’’ٹی وائٹنر‘‘ دودھ نہیں ہے۔ لیکن ہم پی گئے اور ابھی تک پی رہے ہیں۔ سبزی کی فصلوں اور پھلوں کے باغات پر کیڑے مار ادویات کے نام پر جو کچھ چھڑکا جاتا ہے، وہ انسان کے لئے مفید کیسے ہو سکتا ہے۔ عام انسانی دوا، اگر معالج کی تجویز کردہ مقدار سے زیادہ کھا لیں تو جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ اکثر دوائیں تو ویسے ہی ’’بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘‘ کی ہدایت کے ساتھ مارکیٹ میں آتی ہیں۔ اب پھلوں پر بھی مصنوعی رنگ چڑھائے جاتے ہیں۔ کیمیکل سے پالش کئے جاتے ہیں۔ تربوز، خربوزے، گرما اور مالٹے، کنو جیسے کئی پھل اب کیمیکل کے ٹیکے لگا کر ’’قدرتی میٹھے‘‘ بنائے جاتے ہیں۔ یہ پھل ہم کھا رہے ہیں، بالکل ان بچوں کی طرح جو دیدہ زیب پیکٹوں میں بند، زہریلے رنگوں میں بنی گولیاں، ٹافیاں اور چاکلیٹ، انتہائی گندے تیل میں تیار چپس، سلانٹیز اور پاپڑ وغیرہ والدین سے چوری کھا جاتے ہیں۔
گوشت کی کیا کہیں۔ اتنی بھیانک کہانیاں ہیں کہ کلیجہ منہ کو آئے۔ ملک بھر میں مرغی کے گوشت کی کھپت سب سے زیادہ ہے، لیکن جلدی میں تیار کی گئی مرغی یعنی برائلر، مصنوعی طریقے سے اتنی جلدی میں تیار کی جا رہی ہے کہ خدا کی پناہ اور اگر یہ پتا چل جائے کہ ان مرغیوں کو جلد تیار کرنے کے لئے کیا خوراک دی جاتی ہے تو عوام کی اکثریت اسے کھانا ہی چھوڑ دے۔ اندازے کے لئے یہی حوالہ کافی ہے کہ ہیپاٹائٹس، امراض قلب، یورک ایسڈ، کولیسٹرول، معدے اور دیگر کئی امراض کے معالج، دوا کے ساتھ احتیاط میں چکن سے پرہیز ضرور بتاتے ہیں۔ ملک کے چپے چپے میں بنے ’’شوارما پوائنٹس‘‘ پر چکن کے نام پر ’’ٹھنڈی مرغی‘‘ جسے پولٹری انڈسٹری میں صرف تلف کرنے کے لئے علیحدہ کیا جاتا ہے۔ شوارما والے اسے بھی خوشبو دار مصالحوں کا ’’کفن‘‘ دیکر ہمارے وجود میں ’’دفن‘‘ کر دیتے ہیں۔ چھوٹے اور بڑے گوشت کے نام پر قصابوں نے کیا کیا کچھ ہمیں کھلا دیا، یاد کریں تو گھن آتی ہے
۔ بیمار اور مردہ جانوروں کے گوشت کے حوالے سے اگرچہ فوڈ اتھارٹی والوں کی کارکردگی خوب رہی، لیکن شکوک و شبہات میں الجھی قوم ہر طرح کے گوشت سے جنم لینے والی نت نئی بیماریاں پال لیتی ہے، لیکن کسی گوشت سے پرہیز نہیں کرتی۔ ہماری بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ مضر صحت گھی اور تیل میں پکے بیمار جانوروں کا گوشت کھانے سے مہلک امراض کا شکار ہونے کے بعد جو مہنگی دوا کھاتے ہیں، وہ بھی خالص نہیں۔ کسی دور میں دوا ساز کمپنیاں، اپنے نمائندوں کے ذریعے ڈاکٹرز کی ’’دکانوں‘‘ پر ان کے نام کے بال پن، لیٹر پیڈ، کیلکولیٹر اور ڈاکٹر کی میز کے لئے ہلکی پھلکی سٹیشنری کی ’’رشوت‘‘ دیتی تھیں۔ اب بات آگے بڑھ کر کاریں دینے یا تھائی لینڈ کا ’’پرتعیش چکر‘‘ لگوانے تک پہنچ گئی ہے۔ کچھ زیادہ شریف اور پرہیز گار قسم کے ڈاکٹر تھائی لینڈ نہیں جاتے، وہ کمپنی کے خرچے پر توبہ استغفار کے لئے عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں۔
چسکے دار، مرغن کھانوں اور تعیش زندگی کا ایک اور لازمی جزو، کولڈ ڈرنکس بھی ہیں۔ کولا بنانے والی تمام کمپنیاں اتنے پرکشش اشتہاروں کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کرتی ہیں۔ دیکھنے والا سوچتا ہے کہ اگر مَیں نے کولا نہ پیا تو کیا جیا۔ کئی اشتہار دیکھ کر تو لگتا ہے مستقبل کی مائیں بچے کو اپنا دودھ پلانے کے بجائے فوری توانائی کے لئے مصنوعی اور زہریلے رنگوں والے انرجی ڈرنکس کے فیڈر بھر بھر کے دیا کریں گی۔ اگر ایسا نہ کریں گی تو بچے کی دن بدن گرتی صحت کے جرم میں انہیں سزا دی جائے گی۔ میڈیا ہاؤسز تو اپنی معاشی یا اشتہاری مجبوریوں کے باعث زبانوں پر تالے لگا چکے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ویڈیوز سب کچھ دکھا چکی ہیں کہ تمام کولا پرانے سے پرانا رنگ اتارنے اور غسل خانوں کے کموڈ وغیرہ صاف کرنے کے لئے زیادہ مفید ہے۔ شائد ہم اپنے اندر کا زنگ اتارنے کے لئے ہر قسم کا مشروب آنکھیں بند کر کے ’’ڈکا ڈک‘‘ پیتے ہیں اور پیتے رہیں گے۔
ہم زہر آلود پانی پی رہے ہیں۔ کیڑے مار دواؤں سے تیار سبزیاں اور پھل کھا رہے ہیں۔ دودھ کے نام پر کپڑے دھونے والا پاؤڈر پی گئے۔ بیمار جانوورں کا گوشت کھا رہے ہیں۔ مضر صحت رنگوں والے مشروبات پی گئے، گولیاں ٹافیاں اور گندے تیل میں تلے ہوئے چپس، پاپڑ کھا گئے۔ اگر بیمار ہوئے تو گندے ہسپتالوں کے فرش پر مہنگی جعلی دوائیں پی گئے۔ پھر بھی زندہ ہیں۔ کسی مہلک، مضر، خطرناک، جعلی اور زہر آلود خوراک اورچیز نے ہم ڈھیٹوں کو کچھ نہیں کہا۔
ہم زمین پر دندناتے پھرتے، زندہ سلامت ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ، اب 20 کروڑ 70 لاکھ ہوگئے۔ گویا انسانی جسم ایک لیبارٹری ہے جو خوراک کے مہلک، مضر، جعلی یا زہر آلود ہونے کا محض پتہ دے سکتی ہے، لیکن کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ بھاڑ میں جائیں مہلک، مضر چیزیں اور زہر آلود مشروب اور سنکھیا ملے پانی۔۔۔!