ایسے کب تک چلے گا؟
جب بھی اہل اقتدار یا بڑے انتظامی افسران سے دوران گفتگو طرز حکمرانی کا ذکر ہوتا ہے تو ان کی پیشانیوں پر بل پڑ جاتے ہیں، وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے کہ طرز حکمرانی میں کہیں نہ کہیں کوتاہی ہو تی ہے یا انتظامی صلاحیتیں زنگ آلود ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے بار بار اور ہر بار عوام بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ کراچی میں حال ہی میں ہونے والی بارش کو ہی لے لیجئے، کہیں تو کوتاہی ہوئی جس کی وجہ سے حکمرانوں کی رعایا کو ایسے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا جس کا ازالہ حکومت کو تو کرنا ہی نہیں ہے، لوگوں کو خود ہی بھگتنا پڑے گا۔
اگر حکومت پر نقصانات کا ازالہ کرنے کی پابندی عائد ہو جائے تو ممکن ہے کہ سرکاری کارکردگی میں کوئی فرق پیدا ہوجائے۔ عام لوگ مشکل سے پیسہ جمع کر کے اپنے اثاثے بناتے ہیں جو حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پانی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ایک بارش کیا پڑی پورے کراچی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔
مفلوج زندگی کو لوگوں نے خود دکھیلا ۔ اکثر علاقوں میں تو آج تک پانی کھڑا ہوا ہے۔ حیدرآباد میں تو کراچی کے مقابلے میں بہت کم بارش ہوئی لیکن نشیبی علاقوں میں رہائش رکھنے والوں کے لئے مشکلات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ میرپور خاص جیسے شہر میں جو صوبہ سندھ کا ایک خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا ، بارش کی وجہ سے پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا ہے ، بلدیہ مفلوج ہے اور وزارت بلدیات کو فرصت ہی نہیں ہے کہ صوبے کے شہروں کی حالت کو دیکھ ہی لیاجائے۔
کراچی اور حیدرآباد میں تو اونچی عمارتوں کا جنگل اگانے کی اجازت دے دی گئی لیکن میر پور خاص جیسے شہر میں بھی نئی بستیاں قائم کی جارہی ہیں، جہاں فراہمی آب اور نکاسی آب کا سرے سے کوئی بندوبست نہیں ہے۔ یہی حال لاڑکانہ، بے نظیر آباد ( سابقہ نواب شاہ) سمیت تمام شہروں کا ہے۔ وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں سے بارش کا کھڑا پانی خارج کیا جائے تاکہ اسکول اور کالجوں میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔ وزراء اور بلدیات کے منتخب سربراہوں کے درمیاں الزامات اور جوابی الزامات کو سلسلہ تھمتا ہی نہیں ہے، انہیں کوئی تو سمجھائے کہ الزامات کی بھر مار سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہو اکرتے ہیں۔ وزیر ہوں یا میئر یا چیئرمین حضرات، سب ہی کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے تو کہیں جا کر مسائل حل ہوا کرتے ہیں۔ سرکاری محکموں کا حال تکلیف دہ ہے۔ بلدیاتی ادارے حکومت پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ انہیں بارش سے نمٹنے کے لئے رقم فراہم نہیں کی گئی۔ وزیر بلدیات جواب میں کہتے ہیں کہ کراچی بلدیہ کو رقم فراہم کی جا چکی تھی۔ الزام اور وضاحت سے ان لوگوں کا کیا فائدہ جن کا بارش کی وجہ سے بڑا مالی نقصان ہو گیا۔
شہروں کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے لئے محکمہ ٹاؤن پلاننگ موجود ہے لیکن اسے کون پوچھتا ہے۔ بھولے بھٹکے کوئی اجازت لینا ضروری سمجھتا ہو تو لے لیتا ہے ورنہ سب کا کام چلتا ہے۔ صورت حال اس حد تک خراب ہوئی کہ ہائی کورٹ نے بھی محسوس کیا اور حکم جاری کیا کہ کسی بھی ہا ؤسنگ اسکیم کی محکمہ ٹاؤن پلاننگ کی اجازت کے بغیر تشہیر نہیں کی جائے گی۔ ایف ایم ریڈیو اور ٹی وی چینلوں نے کہیں عمل کیا اور کہیں من مانی کی ۔کسی نے روکا ٹوکا بھی نہیں لیکن ٹاؤن پلاننگ کے حکام نے کوئی با معنی قدم نہیں اٹھایا۔ کراچی سمیت پورے سندھ میں خمیازہ اسی بات کا بھگتنا پڑ رہا ہے کہ سرکاری محکموں نے اپنی ذمہ داریاں انجام دینا چھوڑ دی ہیں۔ ہر وہ کام ہوجاتا ہے جہاں پیسہ نظر آتا ہے اور ہر وہ کام رہ جاتا ہے جہاں پیسہ نہیں ملتا۔ جواب میں ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے والے لوگ نیچے کے عملے کو خاموش رہنے کی قدر کا احساس دلادیتے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد میں سندھ بلڈنگ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ نے شہروں میں جس تیزی کے ساتھ اونچی عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی ہے اس کا خمیاز تو لوگ بھگتیں گے ہی لیکن یہ شہر پر سکون طور پر رہائش رکھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ قدم قدم پر پیسے لے کر جائز اور ناجائز اجازت دینے والوں کو اس سے کیا سروکار کہ شہروں کا کیا حشر ہوجائے گا۔ اسی طرح کینٹونمنٹ بورڈ بھی من مانی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ منظور شدہ نقشہ کے بعد ایک دو منزلوں کی تعمیر کی مزید اجازت دینا معمول بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل بن گیا ہے جس میں وزراء، افسران ، اور بلڈر پیسے بنا کر نکل جاتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
بلدیا تی اداروں کو موجودہ قوانین میں ہی درج اختیارات پر عمل کرانے میں کیا قباحت ہے، یہ تو حکومت سندھ کے اعلی حکام جانیں جنہیں یہ بتانا چاہئے کہ آخر وہ سندھ کو کیوں تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ سرکاری محکموں کو کیوں نہیں قانونی اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے؟ اونچی عمارتوں کی تعمیر کو کیوں نہیں روکا جا سکتا ؟ شہروں سے ملی ہوئی نئی بستیوں کے قیام پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاسکتی؟ فراہمی آب اور نکاسی آب کے قابل عمل منصوبوں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ نئے شہر کیوں آباد نہیں کئے جاسکتے؟ صرف محکمہ بلدیات کا معاملہ ہی نہیں ہے۔
تمام ہی سرکاری محکمے ایک ہی ڈگر پر چل نکلے ہیں۔ کراچی میں ان ہی دنوں میں ایک فیکٹری میں آگ لگی، اس کے زیر زمین منزل میں رکھے ہوئے اس کیمیکل میں آگ لگی جسے بجھانے میں گھنٹوں لگ گئے۔ بعض چینل نے خبر دی کہ مزدوروں نے عید پر ان کو تن خواہ نہ ملنے پر احتجاج میں یہ کارروائی کردی ۔ ذمہ دار لوگوں کے خلاف تو کارروائی ضرور ہونا چاہئے لیکن فیکری مالک اور محکمہ لیبر کے افسران کے خلاف بھی کارروائی ہونا چاہئے۔ مالک محنت کشوں کو ان کی اجرت کیوں نہیں دے سکا؟ محکمہ محنت کے افسران نے کبھی اس بات کو جائزہ لیا کہ زیر زمین ایسا کیمیکل کیوں ذخیرہ کیا گیا تھا ؟ کیا اس ذخیرے میں آگ لگنے کی صورت میں حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے ؟ محکمہ محنت کے افسران کو قانون پر عمل در آمد نہ کرانے کے قدم قدم پر پیسے ملتے ہیں اسی وجہ سے کسی بھی کارخانے میں قانون پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔ کراچی میں ہی بلدیہ کے علاقے میں کپڑے کی جس فیکٹری میں آتش زدگی کی وجہ سے خواتین سمیت ڈھائی سو محنت کش ہلاک ہوگئے تھے ، کیا محکمہ نے اپنی کوتاہی کے بارے میں کوئی رپورٹ تیار کی تھی؟ کیا صوبائی وزارت محنت نے افسران سے سوال کیا تھا کہ فیکٹر یوں میں لگنے والی آتش زدگی کی وارداتوں سے محفوظ رہنے والے تمام اقدامات مکمل تھے یا کہیں کوئی کسر رہ گئی تھی۔ اگر کسر رہ گئی تھی تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی گئی؟ اس تماش گاہ میں یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلے گا ؟ کیوں نہیں بااختیار لوگ سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور قانون پر سختی کے ساتھ یقینی عمل در آمد کا فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا ہے ؟