میانمار میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ، چین نے بھی کریک ڈاﺅن شروع کردیا لیکن یہ مسلمانوں کیخلاف نہیں بلکہ ۔ ۔۔
بیجنگ (ڈیلی پاکستان آن لائن) میانمار کی حکومت نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے اوران کی املاک کو جلا کر راکھ کر دیاگیا جس کے بعد برمی مسلمان پناہ کیلئے دوسرے پڑوسی ممالک کارخ کرنے پر مجبور ہوگئے ، اسی دوران چین سے بھی عیسائیت کا پرچار کرنیوالے مبلغین کیخلاف کریک ڈاﺅن کی خبرآگئی ، جی ہاں چین نے ایسے چینی مبلغین کیخلاف کریک ڈاﺅن کا آغاز کردیا ہے جو بیرون ملک عیسائیت کے فروغ کیلئے کام کرنیوالے اداروں سے منسلک ہیں، کریک ڈاﺅن کا فیصلہ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں چینی زبان سکھانے کے نام پر عیسائیت کی تبلیغ میں مصروف چینی جوڑے کے اغواءاور پھر قتل کے بعد کیاگیاجس سے پاکستان اور بیجنگ کے تعلقات بھی کشمکش کا شکار ہوگئے تھے کیونکہ عمومی طورپر چینی باشندے ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوتے ۔
برطانوی میڈیا کے مطابق چینی مبلغوں کے بیرونِ ملک مسائل میں گھرنے کی خبر پریشان کن تھی، لیکن اسی دوران بیجنگ کو بیرونِ ملک اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی،اس دوہری مشکل سے دوچار ہونے کے بعد چینی حکومت نے پاکستان میں ہونے والے واقعے کے بعد ملک میں پہلے سے دباؤ کا شکار مسیحیوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کا آغاز کردیا۔بی بی سی کے مطابق چین میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے ایک امریکی ادارے کے عہدیدار بوب فو نے بتایا کہ چینی حکومت نے صوبہ زیجیانگ میں ٹارگٹڈ کارروائی کرتے ہوئے 4 عیسائی مبلغوں کو گرفتار کیا جو بیرونِ ملک عیسائیت کی تبلیغ کے مشن سے وابستہ تھے، انہیں بعدازاں رہا کردیاگیا تاہم ان پر ٹیلی ویژن چینلز کو انٹرویو دینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔مذکورہ عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ شی جن پنگ کے صدر بننے کے بعد سے چین میں موجود 10 کروڑ مسیحیوں کو کڑی نگرانی کا سامنا ہے جبکہ پاکستان میں ہونے والے واقعے کے بعد سے چین میں عیسائیوں کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔
یادرہے کہ داعش نے رواں برس 24 مئی کو دو چینی شہریوں 24 سالہ لی زنگ یانگ اور 26 سالہ خاتون مینگ لی سی کو اغوا کر لیا تھا بعد ازاں 8 جون کو چینی جوڑے کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق صوبہ زیجیانگ میں ہزاروں کی تعداد میں گھروں میں بنائے گئے پروٹیسٹنٹ چرچ موجود ہیں جن کے ممبران اکثر اپنے گھروں میں خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں،کوئٹہ میں مارے جانے والے جوڑے کا تعلق صوبہ زیجیانگ سے نہیں تھا، تاہم یہ دونوں چینی شہری زیجیانگ کے ایک پروٹیسٹنٹ چرچ سے منسلک تھے۔