فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 202
ان ہی دنوں وحید مراد فلمی افق پر نمودار ہوئے۔ انہوں نے ایس ایم یوسف صاحب کی فلم’’اولاد‘‘ میں ایک مختصر کردار کیا تھا۔ سنتوش صاحب نے اپنی فلم ’’دامن‘‘ میں بھی انہیں ایک ماڈرن نوجوان کے کردار میں منتخب کیا تھا۔ وہ اس اثنا میں اپنی ذاتی فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ میں زیبا کے بالمقابل ہیرو کے طور پر پسند کئے جا چکے تھے۔ اس فلم کی کامیابی نے ان میں ایک نئی خود اعتمادی پیدا کردی تھی اور وہ ’’ارمان‘‘ کے نام سے ایک رومانی فلم کا آغاز کر چکے تھے۔
دامن1963 میں نمائش کے لئے پیش کی جا چکی تھی۔ اس فلم میں وحید مراد کا کردار مختصر تو تھا لیکن فلم بینوں نے انہیں پسند کیا تھا اور یاد رکھا تھا۔ وہ ایک خوش رو‘ دراز قد‘ چھریرے بدن اور سانولی رنگت والے نوجوان تھے۔ چہرے کے نقوش بہت دل کش تھے۔ خاص طور پر ان کی بڑی بڑی شریر مگر اداس آنکھیں ان کے چہرے پر بہت نمایاں تھیں۔ ان کے بالوں کا ایک مخصوص انداز تھا جو ایک جانب پیشانی کو ڈھانپے رکھتاتھا۔ جب وہ سپر سٹار تھے تو ان کے بالوں کا یہ انداز اس قدر مقبول ہوا کہ ہر نوجوان ان جیسے بال بنانے لگا۔ ان کی چال میں ایک لاابالی پن اور ردھم تھا جس نے نئی نسل کو دیوانہ بنا دیا تھا۔ ہلکے پھلکے رومانی کرداروں اور رقص کرنے میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں پاکستان کی فلمی صنعت کا پہلا رقص کرنے والا ہیرو کہا جا سکتا ہے۔ فلمی ضرورت کے مطابق ڈانس تو دوسرے اداکار بھی کر لیتے تھے مگر وحید مراد کے ڈانس میں برق جیسی پھرتی اور پارے جیسی بے قراری تھی۔ اس سے پہلے پاکستانی فلموں میں ہیرو کے رقص نہیں ہوتے تھے۔ سدھیر اور سنتوش کمار نے کبھی رقص نہیں کیا۔ درپن کا بھی یہ ہی حال تھا۔ یوسف خان اور حبیب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ ہیرو کا صرف اتنا کام تھا کہ جب ہیروئن رقص کرے تو وہ کسی درخت یا دروازے کا سہارا لے کر کھڑا ہو جائے یا گھاس کا تنکا چبانے لگے۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 201 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پاکستان کے پہلے ڈانسنگ ہیرو کمال تھے۔ وہ نئی نسل کے ہیرو تھے۔ انڈیا میں شمی کپور وغیرہ نے جس جدید رقص کو اپنایا اس قسم کے کرداروں میں کمال کے سوا کوئی اور موزوں نظرنہ آیا لیکن جب وحید مراد ماڈرن رقص کرتے ہوئے سکرین پر جلوہ گر ہوئے تو نوجوان نسل ان کی پرستار ہو گئی۔ ’’دامن‘‘ کی نمائش 1963ء میں ہوئی تھی یہ ایک انتہائی کامیاب فلم تھی۔ اس میں وحید مراد کا کردار مرکزی نہ تھا مگر نیلو کے ساتھ ان کی جوڑی بنائی گئی تھی۔ ان دونوں نے ماڈرن تہذیب کے نمائندہ نوجوانوں کے روپ میں بہت اچھی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا حالانکہ ان کرداروں کو فلم کے آخر میں سمیٹا نہیں گیا تھا ۔ایک لحاظ سے یہ نامکمل کردار تھے۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے فلم کے اختتام پر کہانی کے مصنف حسرت لکھنوی صاحب سکرین پر دکھائے جاتے ہیں۔ ان سے نیلو کے کردار کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے کہ اس کا اور وحید راد کا کیا انجام ہوا؟ جواب میں وہ مسکرا کر کہتے ہیں ’’یہ آپ خود ہی اندازہ کرلیجئے‘‘
اس ناتمام کردار کے باوجود نیلو اوروحید مراد فلم بینوں کوپسند آئے۔ نیلو تو خیر پہلے ہی دلوں کی دھڑکن بن چکی تھیں۔ رقص اور جدید کرداروں میں انہوں نے ایک نیا انداز روشناس کرایا تھا اور اسی لئے وہ ’’سیکس کوئن‘‘ کہلاتی تھیں وحید مراد نے اپنی ذاتی فلم ’’ہیرا اور پتھّر‘‘ بنائی اور زیبا کے ساتھ مرکزی کردار میں پسند کئے گئے۔ ’’دامن‘‘ میں وہ ایک دولت مند مغرب پسند نوجوان تھے مگر ’’ہیرا اور پتھر‘‘ میں انہوں نے نچلے طبقے کے ایک نوجوان کا کردار کیا اور خوب کیا۔ اس فلم میں گدھا گاڑیوں کی ریس بھی تھی جس میں وحید مراد ایک گدھا گاڑی چلاتے ہوئے نظر آئے اور بہت پسند کئے گئے۔
’’دامن‘‘ کی شوٹنگ میں حصہ لینے کے لئے وحید مراد لاہور آیا کرتے تھے اور سٹوڈیو میں ان کی آمد و رفت کی وجہ سے لاہور کے فلمی حلقوں میں بھی ان کا میل جول ہو گیا تھا۔ وہ ایک دولت مند باپ کے اکلوتے‘ اعلی تعلیم یافتہ اور خوب رو بیٹے تھے۔ ان کے والد نثار مراد کا شمار پاکستان کے ممتاز فلم ڈسٹری بیوٹرز میں ہوتا تھا۔ ان کا تعلق تو سیالکوٹ سے تھا لیکن انہوں نے کراچی کو اپنا مرکز بنا لیا تھا اور وہیں بہت دولت اور شہرت حاصل کی۔ وہ ایک خوش اخلاق اور متواضح انسان تھے۔ سوشل حلقوں میں گردش کرتے تھے ۔ان کی کوٹھی پر آئے دن معززّین اور فلم والوں کی دعوتیں ہوتی رہتی تھیں۔ جب تک وحید مراد کا فلمی دنیا سے عملی تعلق پیدا نہیں ہوا تھا اور وہ محض طالب علم تھے ۔وہ فلم والوں سے زیادہ ربط و ضبط نہیں رکھتے تھے۔ لیکن فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کے بعد وہ بے تکلفی سے فلمی حلقوں میں پائے جانے لگے۔ انہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا تھا اور بہت اچھّی انگریزی بولتے تھے۔ ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا۔ ظاہر ہے کہ بہت جلد گھل مل گئے۔
’’دامن‘‘ کی تکمیل کے دوران ان کا لاہور میں آنا جانا رہا اور ملنے جلنے کے بھی زیادہ مواقع ملے۔ ہماری ان سے ملاقات تو کراچی میں ہوئی تھی لیکن جب وہ لاہور آنے لگے تو پھر ملاقات بھی زیادہ ہو گئی لیکن بے تکلف ہونے کے باوجود انہوں نے ایک رکھ رکھاؤ اور رسمی فاصلہ برقرار رکھا۔ سنتوش صاحب کی فیملی سے ان کے خاندان کا بہت گہرا میل جول تھا ’’دامن‘‘ کے زمانے میں وہ سنتوش صاحب کے گھر پر منعقد ہونے والی پُرتکلّف ’’(کھانے پینے کے اعتبار سے) مگر انتہائی بے تکلّف (ماحول اور گپ شپ کے اعتبار سے) دعوتوں میں بھی ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ بات چیت بھی ہوئی مگر ہم ایک دوسرے سے زیادہ قریب اور بے تکلف نہ ہو سکے اور یہ صورت حال آخر تک قائم رہی حالانکہ خاصے اچھے مراسم ہو گئے تھے۔
صبیحہ خانم کو ’’کنیز‘‘ کا سکرپٹ پڑھنے کے لئے دے دیا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہی تھی کہ ہم ڈھنگ سے کہانی سنانا جانتے ہی نہیں تھے‘ دوسرا سبب یہ بھی تھا کہ ان کے کردار کی اہمیت اور مرکزیت کے پیش نظر طارق صاحب کا خیال تھا کہ صبیحہ خانم کو تفصیل سے فلم کا سکرپٹ پڑھنے اور اپنے کردار کی گہرائیوں کو سمجھنے کا موقع مل جائے۔ ہم نے فلم کا سکرپٹ صبیحہ بھابی کوپیش کیا تو سنتوش صاحب نے بہت اطمینان کا اظہار کیا اور کہا ’’مولانا یہ آپ نے بہت عقل مندی کی ہے ورنہ اگر آپ زبانی فلم کی کہانی سناتے تو شاید صبیحہ فلم کی کہانی سن کر کام کرنے سے ہی انکار کر دیتیں‘‘
ہم بُرا مان گئے اور کہا ’’سنتوش صاحب اب ایسی بھی بات نہیں ہے‘‘
کہنے لگے ’’ٹھیک ہے تو پھر سنا کر دیکھ لیجئے‘‘
ظاہر ہے کہ ہم نے یہ چیلنج قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہی مصلحت کا تقاضا تھا۔
سکرپٹ پڑھنے کے بعد صبیحہ خانم سے ہم اور طارق صاحب ملے تو انہوں نے پہلا سوال یہ کیا ’’آپ نے چھوٹے بیٹے کے لئے کون سے اداکار کو کاسٹ کیا ہے؟‘‘
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور طارق صاحب نے کہا ’’کمال کے بارے میں سوچا ہے‘‘
وہ بولیں ’’آپ ویدو کو کیوں نہیں لیتے؟‘‘
’’ویدو؟‘‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔
ہنس کر کہنے لگیں ’’میرا مطلب ہے وحید مراد‘ وحید بہت اچھا لڑکا ہے‘ ہماری فلم ’’دامن‘‘ میں اس نے بہت اچھّا کام کیا ہے‘‘
’’ہاں کام تو اچھّا کیا ہے‘‘
بولیں ’’عمر کے لحاظ سے بھی مناسب رہے گا‘ محمد علی کا چھوٹا بھائی لگے گا ،غریب طبیعت اور مسکین‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگیں۔
’’بھابی ہنسنے کی کیا بات ہے؟‘‘
بولیں ’’بھئی فلم میں اس کی غریبی کا خیال آ گیا تھا۔ فلم والے بھی خوب بہروپ بناتے ہیں امیر کو فقیر بنانا اور غریب کو امیر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے‘‘
طارق صاحب اور ہم اس تجویز کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔
ان ہی دنوں ہم دونوں ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں کراچی گئے اور حسب معمول میٹروپول ہوٹل میں قیام کیا۔ میٹروپول فلم والوں کا پسندیدہ ہوٹل تھا۔ سب ہی وہاں ٹھہرتے تھے ۔کچھ لوگ ہی تھے جو بیچ لگژری میں ٹھہرتے تھے ورنہ لاہور جانے والے ہر فلم والے کو میٹروپول ہوٹل میں تلاش کر لیجئے۔
نور الدین اس زمانے میں اقبال شہزاد کے ساتھ تھے اور ان کی پروڈکشن کے انچارج تھے۔ فلمی دنیا میں وہ ’’انکل نور الدین‘‘ مشہور تھے بلکہ صرف انکل کہنا ہی کافی تھا۔ سب سمجھ جاتے تھے کہ مراد نور الدین کیسٹ سے ہے۔ بعد میں وہ اقبال یوسف سے بھی وابستہ رہے۔ اپنی ذاتی فلمیں بھی بنائیں اور کئی ممتاز فلم سازوں کے ساتھ کام کیا۔ ہماری ان سے فلمی ’’بنجارن‘‘ کے زمانے سے بے تکلفی تھی جب حسن طارق اس فلم کی ہدایت کاری کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھے اور اقبال شہزاد کی کوٹھی میں ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ خدا جانے ان کو پہلی بار ’’انکل‘‘ کا نام کس ستم ظریف نے دیا تھا۔ غالباً اقبال شہزاد نے ان کے بزرگانہ مشوروں کے پیش نظر انہیں ’’انکل‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ حالانکہ وہ اس وقت بھی بے تکلف سمارٹ اور سانولے نوجوان تھے مگر یہ لقب اس قدر مقبول ہوا کہ ان کی پہچان بن گیا۔ فلمی ہیروئین‘ فلم ساز‘ ہدایتکار‘ تقسیم کار سب ہی انہیں ’’انکل‘‘ کہا کرتے تھے۔ اقبال یوسف کہتے تھے کہ انکل کو شاید آنٹی بھی انکل ہی کہتی ہوں گی۔
شروع شروع میں تو انہوں نے اس پر احتجاج کیا خصوصاً اس وقت جب کہ ان کی ایک گرل فرینڈ نے بھی انہیں بے خیالی میں ’’انکل‘‘ کہنا شروع کردیا‘ مگر بعد میں گویا انہیں صبر آ گیا تھا۔گرل فرینڈ پیار سے انہیں انکل کہتی تو وہ مائینڈ نہ کرتے ، وہ جگت انکل بن چکے تھے او اس پر ناراض بھی نہیں ہوتے تھے۔
انکل نور الدین میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے مگر بذات خود ایک ماڈرن آدمی تھے۔ ہم نے انہیں کوٹ پتلون کے سوا کبھی کسی اور لباس میں نہیں دیکھا۔ بہت ہوا تو رات کے وقت سلیپنگ سوٹ پہن لیا لیکن قمیض پاجامہ‘ واسکٹ یا شیروانی انہوں نے کبھی زیب تن نہیں فرمائی۔ کم سے کم ہم نے انہیں اس لباس میں کبھی نہیں دیکھا۔ نہ ہی انہوں نے کبھی سر پر میمن برادری کی مخصوص ٹوپی پہنی۔ ان کے بڑے بھائی ضیاء الدین کیسٹ روزنامہ ’’ڈان‘‘ سے وابستہ رہے۔ اس ادارے کے لئے انہوں نے بڑی گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ انکل نور الدین کی زندگی کا بیشتر حصہ فلمی دنیا میں گزرا تھا مگر آخری چند سالوں میں وہ بھی فلمی ماحول سے برگشتہ ہو کر ’’خلیج ٹائمز‘‘ کے تجارتی نمائندے بن گئے تھے اور اسی حیثیت میں کراچی میں وفات پا گئے۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 203 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)