عارف علوی نے صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کو دندان شکن شکست دی
تجزیہ سہیل چوہدری
دندان سازی سے شروع ہونیوالی جدوجہد صدارتی انتخابات میں اپوزیشن کو دندان شکن شکست پر منتج ہوئی جس کے نتیجہ میں ڈاکٹر عارف علوی ملک کے 13ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں ، ملک کے سب سے اعلیٰ ترین منصب صدارت کیلئے سہہ رخی انتخاب ایک ایسا مقابلہ تھا جس کا نتیجہ سب کو پہلے سے ہی معلوم تھا، تحریک انصاف نے ملک میں انقلابی تبدیلیاں بر پا کرنے اور ’’نیا پاکستان ‘‘کی تعمیر کیلئے ایک اور اہم ترین سنگ میل عبور کرلیا ہے ، حکومت کے بعد مملکت خداداد پر بھی اس کی گرفت قائم ہوگئی ہے ، وزیراعظم عمران خان کی اس کامیابی میں بٹی ہوئی منقسم اپوزیشن نے بھی کلیدی کردار اد ا کیا ، اپوزیشن میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں جماعتیں اپنے اپنے مفادات اور اپنی خود ساختہ خودی اور شان کے معیاروں میں گھری ہوئی ہیں جس کا بھر پور فائدہ حکومت نے اٹھایا ، اگر نمبر گیم کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو گمان ہوتاہے کہ متحدہ اپوزیشن حکومت کو صدارتی انتخابات میں ٹف ٹائم دے سکتی تھی حتیٰ کہ کسی غیر معمولی لابنگ کے نتیجہ میں کوئی اپ سیٹ بھی بپا کر سکتی تھی ، لیکن پاکستان پیپلزپارٹی نیب ، ایف آئی اے کے نشانے پر ہونے کی بناء پر کسی سیاسی ایڈونچر کی متحمل نہیں ہوسکتی بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی تسلسل کے ساتھ حکومت کو مفاہمت کے اشارے دے رہی ہے اور’’ ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں ‘‘کے مصداق اشاروں کنائیوں میں پاکستان تحریک انصاف کو باور کروارہی ہے کہ قانون سازی کیلئے ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں جگہ ان کی مدد کے بغیر حکومت کاکام نہیں چلنا ، اب دیکھنا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کس قدر صبر کے ساتھ کب تک ایسے اشارے دیتی رہے گی ، یا پھر نا امید ہوکر متحدہ اپوزیشن کی آپش بروئے کار لائے گی ، منقسم اپوزیشن کی بناء پر حکومت کو صدارتی انتخاب کا میدان مارنے میں قدرے آسانی رہی لیکن یہ ضروری نہیں کہ اپوزیشن ہر ایشو پر منقسم رہے گی ، اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی کو تاحال’’ ڈنڈے اور گاجر ‘‘کی پالیسی کے تحت ڈیل کیا جارہاہے لیکن پی پی پی کے پاس بھی حکومت یا ن لیگ کے ساتھ ملنے کی دونوں آپشن موجود ہیں ، پی پی پی بھی دونوں میں سے کسی ایک آپشن کو کسی خاص وقت میں بروئے کار لاسکتی ہے ، اس کے پاس حکومت اور اپوزیشن دونوں سے سودے بازی کی صلاحیت اور مواقع موجود ہیں ، جبکہ دوسری جانب ن لیگ نے گزشتہ روز شہباز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی اجلاس میں اپنے اسیر قائد نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم نوازشریف کو انصاف نہ ملنے پر اپنے تحفظات کا اظہار تو کیا لیکن بلا شبہ شہبازشریف نے جب سے ن لیگ کی باگ ڈور سنبھالی ہے تو انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنان و قائدین کے جذبات کے طوفان کے آگے مفاہمت کا بند باندھ دیا ہے ، اگرچہ وہ اپوزیشن رہنماء تو بن گئے ہیں لیکن لگتاہے کہ وہ فی الحال رسمی اپوزیشن رہنما ہونگے ، ان کے مفاہمتی اسلوب کو دیکھ کر لگتاہے کہ وہ جیسے ’’بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں ‘‘ کے مصداق متحدہ اپوزیشن کے قیام کے وسیع تر مقصد کیلئے سابق صدر زرداری سے ملنے اور متفقہ صدارتی امیدوار میدان میں اتارنے جیسی کسی بڑی سیاسی پہل کی آپشن کو بروئے کار نہیں لاسکے ، جس کی بناء پر حکومت کو صدارتی الیکشن کے محاذ پر بڑی کامیابی ملی ، پاکستان پیپلزپارٹی کے حلقوں کے مطابق پارٹی کی سینئر قیادت سابق اپوزیشن رہنماء خورشید شاہ کو صدارتی امیدوار بنانے کی خواہش مندتھی لیکن خورشید شاہ اس کیلئے آمادہ نہیں ہوئے اسی اثنا میں خورشید شاہ کو پارٹی کے اندر سے ہی باور کروایا گیا کہ اگر سابق صدر زرداری اعتزاز احسن کے نام پر آمادہ ہو جائیں تو اعتزاز احسن نہ صر ف مقتدر حلقوں کے لئے قابل قبول ہوسکتے ہیں بلکہ باقی جماعتوں سے بات کرکے ان کے نام پر اتفاق رائے حاصل کیا جاسکتاہے اس کیلئے خورشید شاہ نے آصف علی زرداری کو قائل کیا اور اور جب خورشید شاہ کے کہنے پر آصف علی زرداری نے انہیں ٹیلی فون کیا تو وہ فوراًان کے پاس چلے آئے اور کہا کہ وہ ایک شرط پر امیدوار بننے کے لئے آمادہ ہونگے اگر انہیں بعد میں کسی کے حق میں دستبردار ہونے کیلئے نہ کہا جائے واقفان حال کے مطابق آصف علی زرداری کے حامی بھرنے کے بعد اعتزاز احسن کی باڈی لینگویج بہت بااعتماد تھی ، تاہم طے ہوا تھا کہ ن لیگ سے ملاقات سے قبل یہ نام راز میں رکھا جائے گا ، تاہم اعتزاز کی پارٹی کے اندر مخالف لابی میں ایک نوجوان سیاست دان نے دانستہ یہ نام طشت از بام کردیا جس پر ن لیگ برہم ہوگئی اور اعتزاز احسن کو متفقہ امیدوار بنانے کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ، دوسری جانب صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن نے ن لیگ کی قیادت کو یقین دلایا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری ان کے دیرینہ دوست ہیں اور وہ بالآخر ان کے نام پراتفاق کرلیں گے ، تاہم ن لیگ کے صدر شہباز شریف یک طرفہ طورپر پی پی پی کی جانب سے اعتزاز احسن کا نام دینے پر شاکی ہوگئے تھے، اس بناء پر انہوں نے از خود سابق صدر زرداری سے براہ راست رابطہ کرکے ٹھوس با معنی بات چیت کی پہل سے گریز کیا۔’’ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا اپنا راگ‘‘ کے تحت اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے صدارتی الیکشن میں حصہ لے کر حکومت کی مشکل آسان کردی بلکہ عارف علوی کی بطور صدر کامیابی میں ہاتھ بٹایا ، تاہم اپوزیشن رہنماء شہبازشریف نے صدارتی الیکشن کیلئے ووٹنگ کے عمل کے دوران ایوان سے واپس جاتے ہوئے پی پی پی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری سے مصافحہ کیا لیکن ’’بہت دیر کردی مہربان آتے آتے ‘‘کے مصداق اس مصافحہ کی حیثیت صرف رسمی رہ گئی ، ووٹنگ کے دوران مجموعی طورپر ماحول خوشگوار رہا حکومت اور اپوزیشن کا ٹکراؤ نظر نہیںآیا عارف علوی اور حکومتی ارکان کے چہرے کھلے ہوئے تھے اور ان پر مسکراہٹ عیاں تھی ، بیشتر ارکان بالخصوص خواتین ارکان عارف علوی کے ساتھ تصویریں بنواتی رہیں ، حتیٰ کہ گیلریوں میں بیٹھے ہوئے مہمانوں کی فرمائش پر عارف علوی نے ایک مہمان کے موبائل فون کے کیمرے سے گیلری میں بیٹھے ہوئے مہمانان کو بیک گراؤنڈ میں لے کر سیلفیاں بھی بنائیں جبکہ پارلیمنٹ کے ملازمین کی درخواست پر ان کے ساتھ بھی تصاویر بنوائیں ، وزیراعظم عمران خان سہہ پہر ووٹ ڈالنے آئے تو انہیں چند منٹ کھڑے ہوکر انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی کیونکہ پریذائیڈنگ افسر تھوڑی دیر کیلئے ایوان سے باہر چلے گئے تھے، اعتزاز احسن تھوڑی دیر کے لئے ایوان میں آئے لیکن مولانا فضل الرحمن نے ایوان میں آنے کی زحمت نہیں کی ، جبکہ عارف علوی تمام وقت ایوان میں موجود رہے ، عارف علوی کی صدارت کے عہدہ پر کامیابی سے عوام کی ’’توقعات کے کوہ قاف کے پہاڑ ‘‘مزید بلند ہوگئے ہیں ،اب دیکھنا ہے کہ حکومت عوا م کی توقعات پر کس قدر پورا اترتی ہے وزیراعظم عمران خان نے اپنے وعدے پورے کرنے کیلئے 90دن کی مہلت مانگی ہے جس کی کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوچکی ہے ۔