گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گُہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ، مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
حناءے پاۓ خزاں ہے ، بہار اگر ہے بھی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ گل مت دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہاۓ بے جا کا
ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بنِ موکام چشمِ بینا کا
دل اس کو پہلے ہی ناز و ادا سے دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا
فلک کو دیکھ کے کرتا ہہوں اس کو یاد اسد
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا
شاعر: مرزا غالب