وہ غزوہ جس میں حضرت علیؓ نے ایک ہی وار سے قریش کےمشہور سردار کو ڈھیر کردیا

وہ غزوہ جس میں حضرت علیؓ نے ایک ہی وار سے قریش کےمشہور سردار کو ڈھیر کردیا
وہ غزوہ جس میں حضرت علیؓ نے ایک ہی وار سے قریش کےمشہور سردار کو ڈھیر کردیا
سورس: Wikimedia Commons

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

غزوہ بدر میں مسلمانوں کے مٹھی بھر لشکر نے بے سرو سامانی کے عالم میں کفار کے اپنے سے تین گنا اور اس وقت کے جدید اسلحے سے لیس لشکر کو شکست دی جس کے باعث قریش مکہ کو  بہت زیادہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی شرمندگی کا ازالہ کرنے کیلئے کفار نے ایک بار پھر جنگ کی تیاری شروع کردی ، چونکہ ابو جہل مارا جا چکا تھا اس لیے حضرت ابو سفیان  رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کیا گیا ۔یہاں یہ واضح رہے کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔کفار مکہ کی تیاری عروج پر تھی جس میں مزید جوش اور ولولہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا پیدا کر رہی تھیں، آپ حضرت ابو سفیانؓ کی اہلیہ تھیں اور آپ نے بھی فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔ ہندہؓ اس لیے بھی مسلمانوں بالخصوص حضور ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ سے بدلہ لینا چاہتی تھیں کیونکہ انہوں نے ان کے باپ عتبہ بن ربیعہ کو غزوہ بدر کے دوران قتل کیا تھا۔

جنگ احد کی تیاری اتنی شدت سے کی گئی کہ شام سے آنے والے تجارتی قافلے کا سارا نفع اس میں لگادیا گیا، قریش نے تین ہزار کا لشکر تیار کیا جس میں سے 700 افراد زرہ پوش تھے، ان کے پاس 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تھے۔ جب کفار کی یہ تیاریاں جاری تھیں تو اس وقت حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ میں ہی موجود تھے  جو کفار کی تیاری کی  اطلاعات رسول اللہ ﷺ کو پہنچاتے رہے۔

دوسری جانب رسول اللہ ﷺ کو کفار کی تیاریوں کا علم ہوا تو آپ نے صحابہؓ سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ مدینہ میں رہ کر جنگ کرنے کی بجائے شہر سے باہر مقابلہ کیا جائے۔ اس مشاورت کے بعد رسول اللہ ﷺ ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بظاہر مسلمان ہوگیا تھا لیکن دل و نگاہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ مشرکین مکہ سے اس کے روابط قائم تھے یہ دوسرے منافقین مدینہ کے ساتھ سازشوں میں مصروف رہا۔  مدینہ سے نکلتے وقت یہ اسلامی لشکر میں موجود تھا لیکن طلوع فجر سے کچھ دیر پہلے اسلامی لشکر نے مارچ کیا۔ نماز فجر شوط میں ادا کی جہاں سے دشمن کا لشکر صاف نظر آ رہا تھا تو عبداللہ بن ابی نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت صدائے احتجاج بلند کی کہ جنگ کے بارے میں ہماری بات نہیں مانی گئی کہ ہم مدینہ میں محصور ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن چند نوجوانوں کے کہنے پر کھلے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اپنے آپ کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں۔ پس عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ اسلامی لشکر سے علیحدہ ہوگیا۔

اس لشکر میں ہندہ بھی شامل تھیں، انہوں نے مکہ میں رہتے ہوئے اپنے گھر پر محافل کرائیں اور لوگوں میں جوش و جذبہ بیدار کیا، اس کے بعد ان سمیت کئی خواتین جنگ کے میدان میں بھی آئیں، ان خواتین نے جنگی نغمے پڑھ کر کفار کے جوش کو بڑھایا، ہندہ نے اپنے ایک غلام وحشی بن حرب کو خصوصی طور پر اس بات کا مشن دیا کہ وہ حضرت حمزہؓ کو شہید کرے گا جس کے بعد ہندہ ان کا کلیجہ چبائیں  گی۔ وحشی بن حربؓ بھی بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔ یہ لشکر جب ابو کے مقام پر پہنچا تو ہندہ نے مشورہ دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہؓ کی قبر کی بے حرمتی کی جائے لیکن کفار مکہ اس کے نتائج سے خوفزدہ ہوئے اور اس مشورے پر عمل کرنے سے  باز رہے۔

احد میں شوال کے مہینے میں سنہ تین ہجری میں جنگ ہوئی، مسلمانوں کی پوزیشن ایسی تھی کہ ان کے پیچھے احد پہاڑ تھا ، یہاں ایک درہ بھی تھا جس سے کفار کے حملے کا خدشہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دفاعی نقطہ نظر کے تحت اس درے پر 50 تیر اندازوں کو تعینات کیا اور انہیں ہدایت کی کہ تاحکم ثانی اپنی جگہ کو نہ چھوڑیں۔

جنگ کے آغاز پر ابو سفیانؓ نے جنگی چال چلی ، چونکہ پہلے ہی 300 منافق مسلمانوں کو چھوڑ کر جاچکے تھے اس لیے قبیلہ بنو اوس کے سردار ابو عامر کو میدان میں اتارا۔  وہ رسول اللہﷺ اور اسلام کا سخت دشمن تھا۔ مسلمانوں سے عداوت کی بنا پر مکّے میں رہنے لگا تھا تاکہ قریش کو مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ کر سکے۔ ابو عامر نے قریش کو یقین دِلایا تھا کہ جب وہ میدانِ جنگ میں آواز لگائے گا، تو انصار اسلامی لشکر سے نکل کر اُس کے پاس آ جائیں گے۔

اُس نے میدان میں آ کر آواز لگائی’’اے مدینے کے لوگو! دیکھو مَیں ابوعامر راہب ہوں۔ آئو میرے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ انصار نے جواب دیا’’اے فاسق شخص ہم تجھ کو خُوب اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘ اس موقع پر ابو عامر فاسق کے صاحب زادے، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا’’یارسول اللہﷺ! مجھے اجازت دیجیے، اس مشرک کی گردن اُتار دوں۔‘‘ مگر آپﷺ کے جذبۂ رحمت نے یہ گوارا نہ کیا کہ بیٹے کی تلوار باپ کے خون سے رنگین ہو۔ ابو عامر فاسق شرمندہ و رُوسیاہ ہو کر واپس پلٹ گیا۔

ابو عامر واپس پلٹا ہی تھا کہ کفّار کی صفوں کو چیرتا ہوا ایک مضبوط و توانا نوجوان ایک ہاتھ میں جھنڈا اور دوسرے میں چمکتی تلوار لہراتا میدانِ جنگ میں آیا۔ یہ کفّار کا عَلم بردار اور بنی عبدالدار کا سردار ابو طلحہ بن ابی طلحہ تھا، جسے اپنی طاقت و بہادری پر بڑا ناز تھا۔ حضرت علیؓ میدان جنگ میں آئے اور اس زور سے تلوار کا وار کیا کہ طلحہ کی لاش زمین پر تھی۔ بعض روایات میں حضرت زبیر رضی اللہ کا نام بھی آیا ہے کہ طلحہ کو اُنھوں نے قتل کیا، جس پر نبی کریمﷺ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور فرمایا۔۔۔

ہماری مزید تاریخی اور دلچسپ ویڈیوز دیکھنے کیلئے "ڈیلی پاکستان ہسٹری" یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں