وہ وقت جب یہودی قبیلے نے عین جنگ کے دوران رسول اللہ ﷺ کو دھوکہ دیا
غزوہ خندق کے دوران مدینہ کے شمال کی جانب خندق کی کھدائی ہوچکی تو کفار کا لشکر بھی مدینہ پہنچ گیا۔ 8ڈی قعدہ کی صبح رسول اللہ ﷺ نے مسلمان عورتوں اور بچّوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا حکم فرمایا اور تین ہزار مجاہدین کے ساتھ روانہ ہوگئے۔دوسری طرف، کفّار کا دس ہزار جنگ جُوئوں پر مشتمل لشکر بھی آگے بڑھ رہا تھا۔ کفّار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک بڑی خلیج اُن کی منتظر ہے۔ جب خندق نے اُن کے بڑھتے قدم روکے، تو وہ حیران پریشان رہ گئے۔ وہ اس طرح کی حفاظتی حکمتِ عملی سے قطعی طور پر لاعلم تھے۔ ہزاروں کا لشکر بے بسی سے خندق کے سامنے کھڑا تھا۔ اُن کے سردار غیظ و غضب کے عالَم میں خندق کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ مسلمان بھی اُن کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور تیروں کی بوچھاڑ سے اُنہیں خندق سے دُور کرتے جاتے تھے۔
ایک روز مقابل کفار نے تیر اندازی اور پتھراؤ کے ذریعے اجتماعی طور پر اتنی شدت سے حملہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی چار نمازیں قضا ہوگئیں، اسی دن عرب کے چند مشہور بہادر خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگئے تھے جن میں عمرو بن عبدود اور نوفل بن عبداللہ اور عکرمہ بن ابو جہل شامل تھے۔ اُن میں عمرو بن عبدو بہادری اور شجاعت میں عرب کا ناقابلِ شکست جنگ جُو تھا۔ اُس نے جب حضرت علیؓ کو دیکھا، تو مقابلے کے لیے للکارا۔ حضرت علیؓ نے اُس90سالہ جنگی ہیرو کو ایک ہی وار میں زمیں بوس کر دیا، جب کہ اُس کے باقی ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ کفار نے نوفل کی لاش قیمت کے بدلے طلب کی لیکن رسول اللہ ﷺ نے مفت دے دی۔
سردی کی سخت ترین راتیں تھیں۔ کفار کے مال مویشی مرنے لگے اور محاصرہ ٹوٹنے کی کوئی صُورت نظر نہ آتی تھی۔ اب بے زاری اور پریشانی اُن کے چہروں سے عیاں تھی۔ ایسے میں اُنھیں صرف ایک ہی اُمید تھی کہ مسلمانوں کے حلیف بنی قریظہ کو غدّاری پر آمادہ کیا جائے۔ یہ یہودی قبیلہ مدینے کے جنوب مشرقی کونے میں رہتا تھا اور معاہدے کی رُو سے مسلمانوں کے دشمنوں سے جنگ کا پابند تھا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے اہل و عیّال اُن کے قلعوں کے قریب منتقل کیے تھے۔ کفّار نے یہودی سردار حئی بن اخطب کو اپنا نمائندہ بنا کر اُن لوگوں کے پاس بھیجا۔ پہلے تو بنی قریظہ نے اُنہیں صاف جواب دے دیا، لیکن پھر حئی بن اخطب کے مسلسل اصرار اور سبز خوابوں کے جال میں پھنس کر یہودی ذہنیت اُن پر غالب آ گئی اور وہ معاہدے سے انحراف پر راضی ہو گئے۔ رسول اللہﷺ کو اس غدّاری کی اطلاع ملی، تو آپ ﷺ نے انصار سرداروں سعدؓ بن محاز، عبداللہؓ بن رواحہ، سعدؓ بن عبادہ اور خواتؓ بن جبیر کو فوری طور پر اُن کے پاس بھیجا۔ تاہم، بنو قریظہ نے معاہدے کے وجود ہی سے انکار کردیا۔ یہ خبر مسلمانوں کے لیے بے حد اضطراب و پریشانی کا باعث بنی، کیوں کہ سب کے اہل و عیّال اُسی جانب تھے۔
تاہم، منافقین کے لیے یہ اطلاع خوش آئند تھی اور اُنہوں نے افواہوں کا طوفان کھڑا کر دیا۔ جنگ اور محاصرے کے دَوران یہ نازک لمحات آنحضرتؐ کے لیے فکر مندی اور تشویش کا باعث تھے، لیکن پھر اللہ نے اپنے محبوبﷺ کو جلد ہی اس پریشانی سے نجات کا انتظام کر دیا۔ قبیلہ غطفان کے ایک بااثر یہودی رئیس نعیم بن مسعود نے آنحضرتؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ نعیم بن مسعود کے بنو قریظہ اور کفّارِ مکّہ کے اکثر سرداروں سے قریبی تعلقات تھے۔ اُن کے اسلام لانے کا علم ابھی اُنھیں نہیں ہوا تھا، چناں چہ اُنھوں نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت بنو قریظہ اور قریش کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا، جس سے کفّار کے حوصلے چکنا چُور ہوگئے۔نعیم بن مسعود نے بنو قریظہ قبیلے کے لوگوں سے کہا۔۔۔
ہماری مزید تاریخی اور دلچسپ ویڈیوز دیکھنے کیلئے "ڈیلی پاکستان ہسٹری" یوٹیوب چینل سبسکرائب کریں