ودہولڈنگ ٹیکس کا حصہ سیلز ٹیکس موڈ کے ڈائریکٹ ٹیکسز میں 70فیصد تک پہنچ گیا

    ودہولڈنگ ٹیکس کا حصہ سیلز ٹیکس موڈ کے ڈائریکٹ ٹیکسز میں 70فیصد تک پہنچ گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                            کراچی (سٹاف رپورٹر) صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایف پی سی سی آئی پہلے سے ٹیکس شدہ طبقات یا سیکٹر زپر ٹیکس میں کسی بھی اضافے کی شدیدمخالفت کرتی ہے؛چا ہے وہ کسی بھی قسم کی ایڈوانس ٹیکس وصولی ہو؛کو ئی بھی ود ہولڈنگ ٹیکس ہو یا کسی بھی  طر ح کا زبر دستی سیلز ٹیکس موڈ میں اضافہ ہو۔انہو ں نے مزید کہا کہ کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری پر پہلے ہی کافی غیر منصفانہ ٹیکس لگے ہوئے _ ہیں اورہم اب ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں ہم مزید کسی اضافی بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے فیڈریشن کے اس موقف کو دہرایا کہ ہمیں پاکستان میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے؛ ٹیکس جمع کرانے کے نظام کو آسان بنانا ہے؛ ایسی ٹیکسیشن اصلاحات کرنی ہیں کہ جو معاشی طور پر معنی خیز ہوں اور ٹیکسیشن مشینری میں ہراساں کرنے یا بدانتظامی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔بجا ئے اس کے کہ اس قسم کے متضاد، رجعت پسند انہ اور اقتصادی سکڑاؤ کا با عث بننے والے ٹیکس اقدامات کیے جا ئیں۔ صدر ایف پی سی سی آئی عا طف اکرام شیخ نے بتایا کہ مالی سال2024  کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جمع ہونے والے تمام براہ راست ٹیکس جو کہ سیلز ٹیکس موڈ میں جمع ہوتے ہیں ان میں ودہولڈنگ ٹیکس کا تنا سب 70 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور یہ اعداد و شمار انتہا ئی تشویشناک ہیں۔ اس کے علاوہ اب یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنے اور ٹیکس وصولی میں صحت مند اضافہ دکھانے کے لیے ملک میں ایک بار پھر سے WHT بڑھا سکتی ہے۔ یہ کسی بھی پیمانے پر کوئی اچھی کارکردگی ظاہر نہیں کرے گی؛بلکہ،یہ پیش رفت دکھانے کی ایک نا کام کوشش ثابت ہو گی۔ صدر ایف پی سی سی آئی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ود ہولڈنگ ٹیکس میں کسی بھی اضافے کو لاگو کرنے کے لیے حکومت کو سپلیمنٹری فنانس بل 2025 یا ایک منی بجٹ لانا ہوگا۔  انہو ں نے واضح کیا کہ کوئی بھی منی بجٹ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کم کرتا ہے؛ سرمائے کی پرواز کا سبب بنتا ہے؛ صنعتوں کی بندش اور ایکسپورٹرز کے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ عدم اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عا طف اکرام شیخ نے زور دیاکہ WHT سیلز ٹیکس وصولی کے موڈ میں جمع کیا جاتا ہے اور یہ کسی بھی طرح سے کسی قسم کی اقتصادی ترقی کا عکاس نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ملک میں تجارتی سرگرمیوں یا کھپت میں کسی مثبت رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کو پہلے ہی مالی سال 2025کے پہلے 2 مہینوں میں 98ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے اور اب یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس میں مالی سال 2025 کے تیسرے مہینے میں مزید 100 ارب روپے تک کی کمی آئے گی۔ مزید برآں،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں معاشی سر گر میوں اور ایکسپورٹس میں کو ئی ترقی نہیں ہو پاررہی ہے۔ عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ زیادہ ٹیکس پیدا کرنے کا واحد قابل عمل حل یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے انٹرسٹ ریٹ میں فو ری طور پر بڑی کمی کی جائے؛ ایکسپورٹ ما رکیٹس میں علاقائی حریفوں کے مقابلے میں بجلی اور گیس کے نرخوں کو معقول بنایا جا ئے؛میکرو اکنامک پالیسیوں میں تسلسل لا یا جائے اور ٹیکس کی بنیاد کو غیر ٹیکس  شدہ طبقات تک وسیع کرکے معاشی سرگرمیوں کے لیے ساز گار ماحول پیدا کیا جائے۔