پاکستان کا تاریخی پس منظر (1)

پاکستان کا تاریخی پس منظر (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ صرف ہمارے عوام، بلکہ ہمارے دانشور بھی تخلیق پاکستان کے اساسی حقائق سے ناآشنا ہیں۔ وقتاً فوقتاً ہمارے اخباری کالم نگار یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ کیا پاکستان کے بانیان ہندوستان میں رہتے ہوئے خود مختاری کے طالب تھے یا وہ ایک آزاد پاکستان کے خواہش مند تھے؟ جہاں تک علامہ اقبال کا تعلق ہے، انہوں نے کبھی بھی خود مختاری کی بات نہیں کی تھی، جس شے کی انہوں نے بات کی تھی وہ تھی سلطنت برطانیہ میں رہتے ہوئے فرمانروائی (Dominion) کی یا پھر سلطنت برطانیہ سے باہر ایک آزاد مملکت کی۔ 1930ءکے مشہور خُطبہ الٰہ آبادمیں انہوں نے فرمایا تھا: میری خواہش ہے کہ صوبہ جات پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں مدغم کر دیا جائے، جو سلطنت برطانیہ میں رہتے ہوئے خود مختار ہو یا پھر سلطنت برطانیہ سے باہر ایک آزاد ریاست۔ میرے تصور میں شمال مغربی ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کا انضمام مسلمانوں یا کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی تقدیر مبرم ہے۔

جہاں تک قائداعظم ؒ کا تعلق ہے وہ شروع شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے بڑے پرچارک تھے اور ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی خود مختاری سے مطمئن، مگر جب انہیں احساس ہوا کہ ہندو مسلمانوں کے لئے بغض رکھتے ہیں اور اُن کے لئے ان کے ارادے نیک نہیں ہیں، تو انہوں نے اپنی ساری توانائیاں پاکستان کے حصول کی طرف مبذول کر دیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں ایک عمومی تصور یہ تھا کہ سلطنت برطانیہ میں رہتے ہوئے فرمانروائی کا درجہ فقط آدھی آزادی ہے۔ بے شک یہ ایک غلط فہمی تھی۔ ویسٹ منسٹر کے قانون(1931ئ) ، جس کے تحت برطانوی دولت مشترکہ کا ادارہ قائم کیا گیا تھا، اپنے سب ارکان کو یہ ضمانت دیتا تھا کہ ان کا درجہ ہر لحاظ سے برطانیہ کے برابر ہو گا۔ دولت مشترکہ کے روابط میں ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ جب 1949ءمیں ہندوستان نے دولت مشترکہ میں رہتے ہوئے جمہوریہ (Republic) کے منصب کو اپنا لیا۔ اُن کے اس اقدام کو دولت مشترکہ کے ایشیائی اور افریقی ممالک، بشمول پاکستان (1956ئ) نے بھی اپنا لیا۔ دوسری جنگ عظیم نے برطانیہ عظمیٰ کی اوّلیت کی پوزیشن کو گھن لگا دیا۔ نتیجتاً دولت مشترکہ کے کئی رُکن ممالک نے آزاد خارجہ پالیسی کو اپنا لیا، چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس تبدیل شدہ سیاسی ماحول میں ”فرمانروائی“ اور ”جمہوریہ“ کے مبینہ فرق کو تقریباً ختم کر دیا۔
بہرحال جہاں تک اس کی مروجہ تنظیم کا تعلق ہے، میرے لئے یہ حیرانی کا باعث بنی، جبکہ 1951ءمیں خوشاب کے ایک پُررونق بازار میں میونسپل کمیٹی کے نقیب نے اپنے ڈھول پر ضرب لگاتے ہوئے یہ اعلان کیا: ”زمین اللہ کی؛ ملک ملکہ کا اور حکومت پاکستان کی، سب لوگو سنو“.... اس کے برعکس پاکستان کے بیورو کریٹ گورنر جنرل نے ملکہ معظمہ کو ٹھینگا دکھا دیا، جب اس نے یکطرفہ طور پر پاکستان کی بالا ترین اختیار رکھنے والی آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ تقسیم ہند نے کئی ایک تنقیح طلب معاملات کو جنم دیا جو ہمارے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی توجہ کے طالب ہیں۔ اس پیرائے میں ایک مسئلہ، جس کو جانچنے کی ضرورت ہے، دونوں فرمانروائیوں، پاکستان اور ہندوستان کے لئے ایک مشترکہ گورنر جنرل کا معاملہ ہے۔ کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مشترکہ گورنر جنرل کے طور پر لارڈ ماﺅنٹ بیٹن ہندوستان پر دباﺅ ڈالنے کے لئے بہتر پوزیشن میں ہوتے کہ وہ پاکستان کے ساتھ منصفانہ رویے کو اپنائے، بالخصوص برطانوی ہند کے اثاثوں کی تقسیم پر۔ اِن لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مشترکہ گورنر جنرل کے بطور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن دونوں پنجابوں میں لاءاینڈ آرڈر کا بہتر انتظام کر سکتے تھے اور یہ کہ کشمیر کا مسئلہ دونوں فرمانروائیوں میں جنگ و جدل کا موجب نہ بنے۔
افواج کے مشترکہ سپریم کمانڈر، فیلڈ مارشل کلاڈ اوکنلک نے برطانوی وزیراعظم کو یہ اطلاع دی تھی کہ ہندوستان کی حکومت مصمم ارادہ کئے ہوئے ہے کہ پاکستان کو برطانیہ کے چھوڑے ہوئے جنگی سازوسامان میں کوئی حصہ نہ ملے۔ تقسیم ہند کے بعد ماﺅنٹ بیٹن اتنا بے بس ہو گیا کہ وہ ہندوستان کے اس مطالبے کا بھی کوئی سدباب نہ کر سکا کہ اوکنلک کو فارغ کر دیا جائے اور دہلی میں اُس کا سپریم ہیڈ کوارٹر تحلیل کر دیا جائے۔ ان سب معاملات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ ماﺅنٹ بیٹن پر اعتبار کر بھی لیتی، تب بھی وہ ایک غیر جانبدار ثالث نہ بن سکتا۔ ان حالات میں یہ باور کرنا مشکل ہے کہ ماﺅنٹ بیٹن بطور مشترکہ گورنر جنرل کامیاب ہو سکتا۔ جیسا کہ آنے والے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ ماﺅنٹ بیٹن ہندوستان کا غلام بن کے ہی اپنی جان بچا سکا۔

یہاں پر ہمیں کچھ غیر معمولی واقعات کا اندراج کرنا چاہئے۔ مشہور جرنلسٹ، ائین سٹیونسن اپنی لارڈ اور لیڈی ماﺅنٹ بیٹن سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ اُس وقت، جبکہ دو فرمانروائیوں کے درمیان کشمیر کا تنازعہ شدت اختیار کئے ہوئے تھا، وہ اُن کے یکطرفہ خیالات دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ دونوں مکمل طور پر ہندﺅں کے طرف دار بن چکے تھے۔ اس بات کی تائید سرحد کے گورنر سر جارج کنگم نے بھی کی ہے، جو اپنی ڈائری7نومبر 1947ءمیں رقم طراز ہے کہ ”مسروی (جنرل) راولپنڈی سے مجھے ملنے کے لئے آیا۔ وہ ابھی ابھی انگلینڈ سے واپس آیا تھا اور دو دن ہوئے کہ وہ دہلی میں تھا۔ وہاں پر وہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا کہ ماﺅنٹ بیٹن بذات خود کشمیر میں فوجی کارروائیوں کی راہنمائی کر رہا تھا۔

برطانوی ہند کے سازوسامان کی تقسیم میں جو مشکلات درپیش تھیں،قائداعظم ؒ اُن سے ناواقف نہیں تھے۔ اُن کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ ہندوستان کے ہندو قائدین پاکستان کی تخلیق کے پہلے چند مہینوں میں اس کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے تاکہ وہ ہندوستان میں دوبارہ شمولیت کے لئے منت سماجت کرتا واپس آئے۔ ان خطرات کی پیش بندی کرتے ہوئے، قائداعظم ؒ نے ایک عالی منشانہ تجویز پیش کی کہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو سپریم گورنر جنرل مقرر کیا جائے جس کے تحت ہندوستان اور پاکستان کے دونوں گورنر جنرل ہوں۔ بہرحال حکومت برطانیہ اس تجویز پر عمل نہ کر سکی، کیونکہ ایسا کرنے میں اسے بے مثال آئینی مشکلات کا سامنا تھا۔ دوسری طرف ماﺅنٹ بیٹن بھی یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھا اس لئے کہ شاید یہ اُس کی قابلیت اور ایمانداری کا بھانڈا پھوڑ دیتی۔ جہاں تک پاکستان کے گورنر جنرل کی قانونی استطاعت کا معاملہ تھا، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935ءکے تحت برطانوی ہند کا گورنر جنرل اس میں ہر وہ رد و بدل کر سکتا تھا جسے وہ مناسب اور ضروری خیال کرے۔ وہ اس ایکٹ میں سے شقیں نکال سکتا تھا یا نئی شقیں ڈال سکتا تھا یا ان شقوں کی حسب ضرورت اصلاح کر سکتا تھا۔ حکومت برطانیہ نے پاکستان کے گورنر جنرل کو 31 مارچ 1948ءتک اس ایکٹ میں رد و بدل کرنے کا اختیار دیا تھا۔ بعد میں اس تاریخ میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی۔
آزادی ہندوستان کے ایکٹ، 1947ءمیں مبینہ طور پر یہ بیان کیا گیا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کی نئی فرمانروائیاں اور ان میں شامل سب حصوں پر حکمرانی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935ءکے تحت کی جائے گی، جسے ہر فرمانروائی کا گورنر جنرل اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال سکے گا۔ حسب منشا ڈھالا ہوا یہ ایکٹ قانون ساز اسمبلی کی طاقت پر قدغن لگا سکے گا بجز اس صورت کے کہ آئین ساز اسمبلی نے ایسا کرنے پر قانونی قدغن لگا دی ہو۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935ءکے برعکس، جس کے تحت گورنر جنرل اور صوبائی گورنروں کو صوابدیدی اختیارِ اعلیٰ عطا کیا گیا تھا، 1947ءکا آزادی ہند ایکٹ اس صوابدیدی اختیار اعلیٰ کو وزراءکے مشورے کا پابند بناتا تھا، مگر چونکہ گورنر جنرلوں کو گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ، 1935 ءمیں رد وبدل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اُن کو اس ایکٹ پر عمل کرنے کے لئے تقریباً لامحدود اختیارات حاصل تھے۔ (جاری ہے)  ٭

مزید :

کالم -