اخوت یونی ورسٹی
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب’’اخوت کا سفر‘‘ سے ایک اقتباس
اخوت یونی ورسٹی کا خواب بھی کوئی نیا خواب نہیں۔ یہ خواب بھی اخوت کے ساتھ ساتھ پرورش پاتا رہا۔ بیس برس پہلے میں امریکا میں’’ مونٹی چیلو‘‘ کے وزٹ پر گیا تو اس خواب نے پہلی کروٹ لی۔ مونٹی چیلو امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن کی قیام گاہ تھی ۔اس نے اپنی زندگی کے آخری دن یہیں گزارے اور پھر یہیں دفن ہوا۔ مونٹی چیلو میں ایک کتبے پہ تھامس جیفرسن کی یہ تحریر درج تھی۔۔۔ ’’میں امریکا کا صدر رہا لیکن میری خواہش ہوگی کہ میں ایک ایسے شخص کے طور پر پہچانا جاؤں جو ایک یونی ورسٹی کا بانی تھا‘‘۔۔۔ یوں امریکا کی مشہور‘ یونی ورسٹی آف ورجینیا کا وجود عمل میں آیا۔ ترقی کا راستہ بھی شاید یہی ہے ۔ عارضی تبدیلی لانا ہو تو کسی کو کاروبار کے لئے سرمایہ فراہم کر دو اور دائمی تبدیلی لانا ہو تو اس کا رشتہ کاغذ ٗ قلم اور کتاب سے جوڑ دو۔مونٹی چیلو کے اس سفر کے بعد اخوت یونی ورسٹی کا خواب بھی زندگی کا حصہ بن گیا ۔ ایک ایسی درس گاہ کا خواب جہاں علم ‘ کاروبار نہ سمجھا جائے۔ جہاں و ہ بچے پڑھیں جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ پہلے سمسٹر کی فیس ہی ادا کر سکیں۔ غربت کی زنجیر کاٹنے کے لئے تعلیم ہی اصل تیشہ ہے۔ بارک حسین اوباما اگر ہارورڈ نہ پہنچتا تو امریکا کا صدر نہ بن پاتا۔
یونی ورسٹی کا خواب ہمیں ناصر محمود کھوسہ کے پاس لے آیا‘پنجاب کے چیف سیکریٹری۔ سول سروس میں لوگ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں مانگتے۔ ہم نے ان سے ذکر کیا۔ مجھے لگا‘ ان کا شوق شاید ہم سے بھی زیادہ تھا۔ انھوں نے ایک لمحہ بھی توقف نہ کیا اور ہماری مکمل مددکی ہامی بھر لی۔ بات حتمی منظوری کے لئے وزیراعلیٰ تک پہنچی۔ اخوت یونی ورسٹی کا منصوبہ جب کیبنٹ میٹنگ میں پیش ہوا تو جو پہلی آواز اس کے حق میں بلند ہوئی‘ وہ کسی اورکی نہیں خود وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی تھی۔ انھوں نے اخوت کی خدمات کو بے حد سراہا۔ اخوت کے بارے میں انتہائی اچھے خیالات کا اظہار کیا اور فوری طور پر زمین کی فراہمی کا اعلان کر دیا۔ہم نے حکومت سے اور کچھ مانگا بھی نہیں تھا۔ میٹنگ میں موجود ایک صاحب نے اعتراض کیا تو وزیراعلیٰ نے کہا‘پٹرول پمپوں اور سی این جی سٹیشنوں کے لئے زمین بٹتی ہے تو آپ اعتراض نہیں کرتے لیکن تعلیم کے لئے آواز اٹھے تو آپ معترض ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بحث کی گنجائش نہ تھی۔ ہمارا عزم ہے کہ چند سال کے اندر یونی ورسٹی کا آغاز ہو جائے۔ یہ بھی عزم ہے کہ اس یونی ورسٹی میں طلبہ سے معمولی فیس لی جائے۔ بس یونی ورسٹی کا ایک بنک اکاؤنٹ ہو جس میں والدین اپنی استطاعت کے مطابق جو کچھ دے سکیں‘ جمع کروادیں۔ جو ایک روپیہ دے سکتا ہے ٗ وہ ایک روپیہ دے۔ جو ایک لاکھ دے سکتا ہے ٗ وہ ایک لاکھ دے۔ نہ تکرار کی جائے، نہ تقاضا کہ علم کا فروغ کاروبار نہیں ‘فریضہ ہے۔اس کی خرید وفروخت سے بہتر ہے کہ اس کی جستجو ہی چھوڑ دی جائے۔میرے محترم استاد صابر لودھی نے ایک روز بتایا کہ گورنمنٹ کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد بھی ایسی ہی کسی درس گاہ کا خواب دیکھتے تھے۔ لیکن یہ یونی ورسٹی بنے گی کیسے؟ میرے ایک دوست نے سوال کیا۔
یونی ورسٹی کیسے بنے گی؟
آئیڈئل ازم زندگی سے کی جانے والی ضد کو کہتے ہیں۔میں نے جواب دیا۔
اخوت یونی ورسٹی بھی ایسی ہی ایک ضد ہے۔
یہ ضد کیسے پوری ہو گی ۔ آج سے چودہ سال پہلے کوئی یہ سوال کرتا تو شاید ہم اس کا جواب نہ دے پاتے لیکن اب ہمارے پاس اس کا جواب موجود ہے۔ اخوت کی کہانی ایسے بہت سے سوالوں کا جواب ہے۔ اگر بلاسود قرضے ہوسکتے ہیں تو بلا فیس تعلیم بھی ہوسکتی ہے۔ مواخات کا ماڈل ہمارے سامنے ہے‘ بس اسے دہرانا ہے۔ پہلے مرحلے میں تعمیر کے لئے تیس کروڑ روپے درکار ہیں۔ دوستوں نے کہا‘ ایک اینٹ کی قیمت ایک ہزار روپے ہونی چاہیے۔ گویا ہمیں صرف تین لاکھ اینٹیں بیچنی ہیں۔ کیا ملک بھر میں ایسے تین لاکھ لوگ بھی نہیں جو اپنے رزق میں سے صرف ایک ہزار روپے ہی دے سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ صرف لاہور میں بیسیوں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس یونی ورسٹی کا سارا خرچ اٹھا سکتے ہیں ، پھر اہلِ خیر لاہور ہی میں نہیں‘ پورے ملک میں رہتے ہیں۔ اب تو پاکستانیوں پر دولت ہُن کی طرح برستی ہے۔ وہ چاہے امریکا میں ہوں،یورپ میں یا مشرقِ وسطیٰ میں۔ ہمیں صرف یہ باور کروانا ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کی طرف۔ نیکی تو یہ ہے کہ اپنا مال قربان کرو ، زکوٰۃ دو اور اس حقیقت کو مان لو کہ جان اور مال لٹانے والے ہی تقویٰ کی منزل کو پہنچ پاتے ہیں۔ اہلِ ثروت کے علاوہ اخوت کے بہادر ساتھی اور لاکھوں Borrowersبھی تو ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی یونی ورسٹی ہو گی جو غریبوں کے پیسوں سے بنے گی۔
ہمیں علم ہے ان لوگوں کے لئے ایک ہزار روپے کی اینٹ خریدنا مشکل ہوگا لیکن یہ بھی یقین ہے کہ اگر موقع آیا تو وہ یہ کام ضرور کریں گے۔ وہ بھی تو اس دیوانگی کے اسیر ہیں جس کا نام اخوت ہے۔ یہ لوگ مالی طور پر غریب ہوسکتے ہیں لیکن یہ کردار کے غریب نہیں اور یہ بات انھوں نے بارہا ثابت کی ہے۔یہ قربانی صرف ابتدائی دس بیس سال کی بات ہے۔ پھر تو یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ ہی کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کا بوجھ اٹھائیں۔احسان کا بدلہ احسان کے سوا اور کیا ہوگا۔ سینکڑوں ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ پروفیشنل‘ اہلِ علم ‘ اہلِ قلم‘ جس مادرِ علمی کے اتنے سپوت ہوں‘ اس کی مانگ بھلا کیسے ویران ہوسکتی ہے۔ مالی استحکام کی فکر انھیں ہوتی ہے جو کاروبار کے لئے آئے ہوں ۔جو بازارِ حیات میں آئے ہی لٹنے کے لئے ہوں‘ انھیں سود و زیاں کا کیا اندیشہ۔اخوت یونی ورسٹی کا فنانشل ماڈل دیکھ کر لوگ حیران ہوتے ہیں لیکن مؤاخات پر یقین رکھنے والوں کے لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔آئیڈیل ازم زندگی سے کی جانے والی ضدکو کہتے ہیں۔ جنوں کا مرض لاحق ہو توزندگی اس ضد کے آگے سرِ تسلیم خم کردیتی ہے۔
(یہ کتاب اخوت ہیڈ آفس:19سوک سنٹر ‘ سیکٹر اے ٹو‘ ٹاؤن شپ اور سنگِ میل پبلی کیشنز: 25 لوئر مال‘ شاہراہِ پاکستان ‘ لاہور سے دستیاب ہے۔)