ریڈ سگنل
جب بھی کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو رٹے رٹائے بیانات سننے کو ملتے ہیں، ’’دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا‘‘ ، ’’آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی‘‘ ، ’’کسی کو معصوم انسانی جانوں کے خون سے ہولی نہیں کھیلنے دی جائے گی‘‘ وغیرہ وغیرہ ہم بیچارے اتنے سیدھے، معصوم اور بھولے عوام ان بیانات پر یقین کرکے اُس دلخراش واقعے کو بھلا کر دوبارہ زندگی کی دوڑ میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ پھر کہیں دھماکہ ہوجاتا ہے پھر یہی کچھ سننے کو ملتا ہے۔ آپ کہیں گے کہ شوقیہ حکومت پر تنقید کی جارہی ہے وہ تو دل سے یہی چاہتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو، اسی لئے تو زخمیوں کی عیادت کرنے جاتے ہیں اور مرنے والوں کے لواحقین کے علاوہ زخمیوں کے لئے بھی خطیر رقوم کا اعلان کرتے ہیں میں کہوں گا کہ کیا مرنے والوں کے لئے امدادی رقم ایک انسانی جان کا متبادل ہے؟ اگر عزم مصمم تھا تو پھر ہر دفعہ کیوں دوبارہ دھماکا ہوجاتا ہے کیا مرنے والوں کو معصوم انسان نہیں سمجھا جاتا، کیا پاکستان میں وہی محفوظ ہے جو گارڈ رکھ سکتا ہے تو بحث برائے بحث شروع ہوجائے گی اور حل کہیں کھو جائے گا۔ دراصل بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ٹھنڈے دل سے معاملے کی سنگینی کو سمجھا جائے اور پھر راست اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ دئیے گئے بیانات پر عمل نظر آئے اور کچھ مثبت نتائج بھی نظر آئیں۔
پہلے بات کرتے ہیں معاملے کی سنگینی کی تو میری دانست میں گرجا گھروں پر حملے پاکستان کی اساس پر حملے ہیں۔ برصغیر کے مسلمان ساڑھے سات سو سال ہندوستان پر حکومت کرنے کے بعد بھی، ہندوؤں کو اعلیٰ عہدے دینے کے بعد بھی جب لوٹ مار کرنے والے قرار دئیے گئے۔ جب انگریزوں کے خلاف تحریک میں اُن سے کام لے کر انہیں چھوڑ دیا گیا اور کانگرسی وزارتوں میں گائے کے ذبح کرنے پر پابندی، اذان پر پابندی، گاندھی کی تصویر کے سامنے جھکنے جیسے اقدامات کئے گئے، مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوشش کی گئی تو مسلمانان ہند کی آنکھیں کھلیں اور ہم نے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ یہی وجہ ہے کہ بطور گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا کہ ہر کسی کو اپنے مندر، مسجد اور گرجے میں جانے کی آزادی ہوگی۔ ہر کسی کے جان، مال اور عزت کا تحفظ ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہوگی۔ بلاشبہ پاکستان کا ریکارڈ بھی اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے شاندار رہا اس کے برعکس بھارتی تاریخ بابری مسجد کے مسمار کرنے، مسلمانوں اور عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنانے اور لاتعداد فسادات کے واقعات سے پُر ہے اور موجودہ حکومت ہند تو گجرات فسادات اور سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی بیساکھیوں کے سہارے ووٹ لے کر آئی ہے۔ اب پاکستان کو اگر داخلی طور پر کمزور کرنا ہے اس کی اساس کو ہلانا ہے، اسے روشن خیال کی بجائے بنیاد پرست، پُرتشدد اور عدم برداشت پر مبنی معاشرہ قرار دینا ہے تو یہاں داخلی طور پر لسانی، فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات ضروری ہیں۔ اس طرح پاکستان کے دشمنوں کو تین فوائد حاصل ہوں گے پاکستان ناکام ریاست بن جائے گا، ہندوستان کی کرتوتوں پر پردہ پڑ جائے گا اس پر بین الاقوامی دباؤ بڑھایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ گرجا گھروں کے دھماکوں پر پوپ فرانسس اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی پاکستان یاد آگیا۔ صورت حال قابل مزید تشویش ہوگئی جب لوگوں نے قانون ہاتھ میں لے کر توڑ پھوڑ کی اور داڑھی رکھنے کے جرم میں دو افراد کو زندہ جلادیا اگرچہ ہجوم میں دہشت گردوں کا شامل ہونا آسان ہے لیکن پھر بھی یہ قابل امر تشویش ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہاہے اور اگر برداشت جواب دے گئی تو کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اب کچھ کرنے کا وقت ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ اتنی تقریر جھاڑنے کے بعد یہ بھی بتا دو کہ کیا کیا جائے۔ آپ نہ بھی کہیں میں پھر بھی اپنی رائے دوں گا۔ میری دانست میں بڑے شہروں، پلوں، حساس مقامات کے داخلی راستوں پر سکینرز لگوائے جائیں۔ یہ سکینرز اتنے بڑے دروازوں پر ہوں کہ نیچے سے گاڑی گزرسکے۔ نادرہ کے چپ والے نئے شناختی کارڈز میں تکلفاً جو چپ لگوائی گئی ہے اب اس کے استعمال کا وقت ہے ہر سطح پر اس کی جانچ کی جائے۔ اس طرح سیکیورٹی کیمروں سے حاصل شدہ معلومات کی بنا پر بھی جانچ پڑتال کا کڑا نظام وضع کیا جائے۔ اگر اب بھی ایسے غیر معمولی اقدامات نہ لئے گئے تو دوبارہ کسی اور دھماکے کے نتیجے میں اس سے بھی شدید ردعمل کا انتظار کریں کیونکہ جو کچھ ہوا یہ ریڈ سگنل سے کم نہیں۔