لاہور ہی ٹارگٹ کیوں؟؟؟
آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد کے بعد ملک کے طول و عرض میں دہشتگردی کی وارداتوں میں کچھ کمی آئی تھی اور خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ دہشتگرد زیر زمین چلے گئے ہیں لیکن یہ مفروضہ درست ظاہر نہیں ہوا اور سال رواں کے دوران مختلف علاقوں میں ہونے والے واقعات نے ثابت کیا کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں وقتی ٹھہراؤ آیا تھا اور دہشتگردوں نے شکست تسلیم کرنے کے بجائے محض اپنی حکمت عملی تبدیل کی تھی۔قبائلی علاقوں اور کراچی سمیت مختلف مقامات پر شروع کئے جانے والے فوجی آپریشن کے بعد انتہا پسندانہ وارداتیں از سر نو شروع ہو گئیں اور اس مرتبہ تو دہشتگردوں نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کا انتخاب کیا ۔امریکہ کے سانحہ 9/11کے بعد پاکستان کے طول و عرض میں دہشتگردانہ کارروائیاں عروج پکڑ گئی تھیں لیکن یہ خیال کیا جاتا تھا کہ امن و امان کے اعتبار سے پنجاب نسبتاً بہتر ہے اور اکا دکا کارروائیوں کے سوا یہاں کوئی بڑی واردات نہیں ہو رہی ۔گزشتہ سال پنجاب کے بعض شہر بھی ان کارروائیوں کی لپیٹ میں آئے لیکن خیبر ، سندھ اور بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب پھر بھی پرامن رہا ۔13فروری 2017ء پنجاب کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش دن بن کے ابھرا جس روز پنجاب بلکہ پاکستان کے دل لاہور میں شہر کے مصروف ترین کاروباری مرکز شاہراہ قائد اعظم کے چیئرنگ کراس چوک پر اس وقت بم دھماکہ کیا گیا جب پنجاب اسمبلی کے بالمقابل فارمیسی سے متعلق کاروباری حضرات اپنے مطالبات کے حوالے سے مظاہرہ کر رہے تھے ۔اس موقع پر اعلیٰ پولیس افسران ، میڈیا سے متعلق افراد سمیت شہریوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔میڈیا کی ڈی ایس این جی وینز بھی مال روڈ پر موجود تھیں ۔گورنر ہاؤس سے ریگل چوک کی طرف جانے والی شاہراہ قائد اعظم عام ٹریفک کے لئے بند تھی جبکہ شہر کے باقی علاقوں میں بھی ٹریفک جام یا سست رو تھی ۔ مال روڈ کے تجارتی مراکز البتہ کھلے تھے تاہم گاہک نہ ہونے کے برابر دکھائی دیئے ۔ مال روڈ کے اس سانحہ کو ایک ہفتہ گزرا تھا کہ شہر کی محفوظ ترین پوش بستی ڈیفنس کے تجارتی مرکز میں 23فروری کو بم کا ہولناک دھماکہ ہو گیا ۔صرف ایک روز قبل روزنامہ ’’پاکستان ‘‘کی اسی اشاعت خاص میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ رواں ماہ فروری اس اعتبار سے منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ اس مہینے میں ملک کے طول و عرض میں دہشتگردی کی کئی وارداتیں رونما ہوئیں ۔اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی تھی کہ دہشتگردی کی تازہ ترین لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے محض بلند و بانگ دعوؤں اور اعلانات کا سہارا لیا جا رہا ہے اور کسی قسم کے ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جو بے گناہ شہریوں کو دہشتگردوں کی دست برد سے محفوظ رکھ سکیں ۔یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ لہر طول پکڑ سکتی ہے اور مزید وارداتوں کا بھی قوی امکان موجود ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی ارباب نے ایک ماہ کے دوران ہونے والے 8خودکش حملوں کے بعد ایک جیسے ملتے جلتے بیانات دیئے اور رٹے رٹائے جملے دہرا کر اپنی جان چھڑوا لی لیکن شاید جن اداروں کو عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے یا جو محکمے اس قسم کی ریاست دشمن کارروائیوں کی پیشگی اطلاع دینے پر مامور ہیں وہ اپنے فرائض بجا طور پر انجام نہیں دے پا رہے ۔ویسے تو کہا جا رہا ہے کہ بعض خفیہ ایجنسیوں نے لاہور سمیت کئی شہروں میں دہشتگردانہ کارروائیوں کی پیشگی اطلاع کر دی تھی ، بالخصوص ڈیفنس یا گرد و نواح کے علاقوں میں ٹارگٹڈ کارروائیوں کا عندیہ بھی دیا گیا تھا ۔اس کے باوجود جمعرات 23فروری کو دن 11بج کر 26منٹ پر ڈیفنس Zبلاک کے کمرشل ایریا میں جو زور دار دھماکہ ہوا وہ ان اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے جو تمام تر اطلاعات کے باوجود مذموم کارروائیاں روکنے میں ناکام ہیں ۔اگرچے یہ دھماکہ لاہور میں 13فروری کو چیئرنگ کراس چوک شاہراہ قائد اعظم پر ہونے والے دھماکے سے مختلف ہے جہاں خودکش حملہ کر کے 2ڈی آئی جی صاحبان کم و بیش درجن افراد کی جان لی گئی ۔تاہم اس دھماکے کے بارے میں سرکاری سطح پر کہا گیا کہ یہ دہشتگردانہ واردات نہیں بلکہ سلنڈر پھٹنے سے دھماکہ ہوا ہے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ سمیت قانون نافذ کرنے والوں کے سربراہان نے میڈیا پر آ کر موقف اختیار کیا کہ اس امر کی سو فیصد تصدیق ہو گئی ہے کہ ڈیفنس Yاور Zبلاک کے سنگم میں مارکیٹ کے اندر دھماکہ سلنڈر پھٹنے سے ہوا ہے جس کا ملک کے طول و عرض میں جاری دہشتگردانہ وارداتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اب گزشتہ روز یعنی بدھ 5اپریل کو دن دیہاڑے لاہور کینٹ میں بیدیاں روڈ پر مردم شماری کی ٹیم پر خودکش حملہ کر کے 4فوجی جوانوں سمیت 6افراد کی جس دلخراش اور دل سوز انداز سے جان لی گئی وہ بھی دہشتگردی کی بدترین واردات ہے ۔پاکستان بھر میں شروع کی گئی مردم شماری کی مہم پر یہ پہلا حملہ ہے جس کے لئے پنجاب کے دارالحکومت کا انتخاب کیا گیا ۔یہ خودکش حملہ جس مقام پر ہوا وہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے مخصوص حیثیت کا حامل ہے اولاً تو یہ چھاؤنی کا علاقہ ہے جہاں دن بھر حساس اداروں کے اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے ۔دوسری اہمیت اس اعتبار سے کہ بیدیاں روڈ کا ایک سرا پاک بھارت سرحد واہگہ سے جا ملتا ہے اور اس علاقہ میں مشکوک افراد کی موجودگی کی اکثر اطلاعات بھی ملتی رہتی ہیں ۔کم و بیش ڈھائی سال قبل یعنی 2نومبر 2014ء کو سرحدی علاقے میں باٹا پور کے مقام پر خود کش دھماکے میں 59افراد جاں بحق اور 120 زخمی ہوئے تھے۔ جاں بحق و زخمیوں میں رینجرز اہلکار، خواتین اور بچے بھی شامل تھے، عینی شاہدین کے مطابق واہگہ بارڈر پر پریڈ ختم ہونے کے بعد رینجرز مارکیٹ میں ہوٹل کے قریب دھماکا ہواتھا، اتوار کے باعث لوگوں کا شدید رش تھا، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، دھماکے میں کئی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ۔دہشت گردوں کا اصل مقصد محض ایک علامتی خودکش حملہ کرکے یہ بتانا ہرگز نہیں تھا کہ وہ ابھی بھی ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بین الاقوامی اہمیت کے حامل واہگہ بارڈر پر آزادی پریڈ کے ختم ہوتے ہی جذبہ حب الوطنی سے سرشار سینکڑوں پاکستانی مرد،خواتین اوربچے پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے واپس لوٹ رہے تھے کہ عین اسی وقت وطن عزیز کے دشمنوں نے اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے معصوم بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کے بیچ و بیچ خودکش حملہ کرکے بڑی تعداد میں معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا۔واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے کے لئے 5ہزار سے زائد خواتین ،بچے اور مرد موجود تھے جیسے ہی واہگہ بارڈر پر پر چم اتارنے کی تقریب ختم ہوئی شہری اپنے گھروں کو جانے کے لئے باہر نکلے،تو وہاں موجود حملہ آور نے شہریوں میں گھس کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے3 رینجرز اہلکاروں،11خواتین اور3بچوں سمیت59 افراد جاں بحق اور رینجرز اہلکاروں سمیت ایک سو سے زائد افر اد زخمی ہو گئے تھے ۔اس دھماکے کے بعد کہا گیا تھا کہ صوبائی دارالحکومت سے متصل پاک بھارت سرحد کے گرد و نواح میں واقع مضافاتی علاقے کسی طور بھی محفوظ نہیں ہیں اور یہاں کسی وقت بھی ملک دشمن عناصر اپنی مذموم کارروائیاں کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود سرحدی علاقے میں معمول کے حفاظتی اقدامات دیکھنے میں آئے اور ان علاقوں میں کوئی بڑا فوجی آپریشن بھی نہیں کیا گیا ۔مناواں پولیس سنٹر کو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا وہ بھی سرحدی علاقے سے جڑا ہوا ہے ۔
اصل سوال یہ ہے کہ لاہور کو کیوں ٹارگٹ کیا گیا ہے ؟پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ پنجاب دوسرے صوبوں کے نسبت ذرا پرامن ہے اور دہشتگردوں کی نظر انتخاب شاید اس پر نہیں پڑ رہی یا یہاں حفاظتی اقدامات اس قدر ہیں کہ دہشتگرد اس طرف کا رخ نہیں کرتے لیکن آج کل نجانے زندہ دلان کے اس شہر کو کس کی نظر لگ گئی کہ کوئی مہینہ خالی نہیں جا رہا ۔لاہور کی آبادی بھی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اوربیرون شہر سے لاہور آنے والوں کا تانتا بھی بندھا ہوا ہے ۔کم و بیش ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے اس میٹروپولیٹن کے داخلی اور خارجی راستوں پر روایتی پولیس ناکے تو ضرور لگے ہیں شہر کے اندر بھی ہلکی پھلکی چیکنگ کا نظام موجود ہے لیکن اسے محفوظ ترین بنانے کے لئے کوئی منظم اور ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے لئے جابجا سڑکیں تو کھودی گئی ہیں لیکن کیمروں کا کوئی مفید استعمال دکھائی نہیں دے رہا اب تک ہونے والے بڑے واقعات میں ان کیمروں نے کوئی خاص کارنامہ بھی نہیں دکھایا جہاں تک گزشتہ روز مردم شماری کی ٹیم پر خود حملے کا تعلق ہے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اصل ٹارگٹ محکمہ مردم شماری کے ملازمین یا بیدیاں روڈ پر موجود شہری نہیں تھے بلکہ ٹیم کی حفاظت پر مامور فوجی جوان ہدف بنائے گئے ۔قبل ازیں بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں کو دہشتگردانہ کارروائیوں میں شہید کیا جاتا رہا ہے اور حساس اداروں کے کہ یہ سپوت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے پاکستانی قوم کو تحفظ فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں ۔آج بھی یہ جوان قبائلی علاقوں سمیت مختلف مقامات پر فسادیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں ۔کچھ تجزیہ کار بیدیاں روڈ پر مردم شماری ٹیم پر حملے کو پانامہ کیس سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں اگر یہ بات درست ہے تو اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا آئندہ چند روز میں متوقع اس کیس کے فیصلے کے متاثرین اس قسم کی واردات کا سہارا لے سکتے ہیں یا محض دوباؤ بڑھانے کی خاطر ایسا کیا جا رہا ہے ۔چند دانشور دہشتگردی کے واقعات کو پی ایس ایل کے پس منظر اور پیش منظر میں بھی دیکھ رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ماہ فروری میں دبئی میں ہونے والے پی ایس ایل میچوں اور گزشتہ ماہ لاہور میں ہونے والے فائنل میچ کے بعد سے پاکستان میں دہشتگردی کی حالیہ لہر نے جنم لیا ہے ۔اس ماہ کے دوران ملک کے طول و عرض میں دہشتگردی کی کئی وارداتیں رونما ہوئیں ۔وطن دشمن قوتوں نے چاروں صوبوں کو اپنی مذموم کارروائیوں کا نشانہ بنایا اور اس دوران اعلیٰ پولیس و فوجی افسر ، اہلکار اور شہری سینکڑوں کی تعداد میں شہید و گھائل بھی ہوئے ۔کئی بچے سایہ پدری سے محروم ہو گئے ،کئی عورتوں کا سہاگ اجڑ گیا ،کئی والدین سے ان کا سہارا چھین لیا گیا اور کئی گھر کفالت سے دور ہو گئے ۔عالمگیر شہرت کے حامل روحانی مرکز سیہون شریف دربار کو اس بدترین انداز سے دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا کہ سو سے زائد زائرین شہید اور زخمی ہوئے ۔پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی مرکزی شاہراہ اسی طرح مال روڈ کے چیئرنگ کراس چوک پر فارمیسی اور کیمسٹ کے کاروبار سے منسلک افراد کے مظاہرہ کے دوران خودکش دھماکے میں پولیس کے 2ڈی آئی جی صاحبان سمیت کم و بیش درجن افراد شہید ہوئے ۔پشاور اور مہمند ایجنسی میں خودکش حملے بھی ماہ رواں کے دوران ہی کئے گئے جن میں 8افراد شہید اور 2درجن زخمی ہوئے ۔بنوں میں تھانے پر خود کش حملے کے دوران بمبار مارا گیا جبکہ کئی اہلکار زخمی ہوئے مہمند ایجنسی میں دہشتگردوں نے پاکستانی چیک پوسٹ پر بھرپور حملہ کیا۔پھر چاروں صوبوں کو اس انداز سے نشانہ بنایا گیا کہ الحفیظ وو الامان ۔ 21فروری کوضلع چارسدہ کی تحصیل تنگی میں کچہری گیٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں کم و بیش7افراد جاں بحق اور 16زخمی ہوگئے ، ڈی پی او چارسدہ سہیل خالد کے مطابق منگل کوایک خودکش حملہ آور نے کچہری گیٹ پر خود کو دھماکے سے اڑایا جبکہ دو خودکش حملہ آوروں کو پولیس نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا‘ واقعہ کے فوری بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیکر امدادی کاروائیاں شروع کیں‘ اور زخمیوں کو فوری طورپر قریبی ہسپتال منتقل کیاگیا‘ جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد شدید زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاوربھجوایا گیا‘ زخمی پولیس اہلکاروں میں فضل ربی‘ اشفاق‘ بلال‘ منصف ‘عثمان اور عالم شامل ہیں‘ابتدائی اطلاعات کے مطابق علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے، اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کچہری گیٹ پر ڈیوٹی سرانجام دینے والے بہادر پولیس اہلکاروں نے اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کی کچہری میں داخل ہونے کی کوشش کوناکام بناکر وہاں پر موجود سینکڑوں لوگوں کی جانیں بچائیں‘ واضح رہے کہ تنگی چارسدہ بازار سے 33کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی جانب واقع ہے اور اس کی سرحد مہمند ایجنسی کے ساتھ ملتی ہے۔جہاں گزشتہ دنوں 2خودکش بمباروں نے پولیٹیکل ہیڈ کوارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جسے وہاں تعینات لیویز اہلکاروں نے ناکام بنا دیا اس دوران 3اہلکاروں سمیت 6افرادشہید اور کئی زخمی ہوئے تھے ۔اسی روز پشاور میں ماتحت عدلیہ کے ججز کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں 2افراد موقعہ پر ہی شہید ہوئے تھے ۔
ہمارا سب سے بڑا چیلنج انڈیا اور افغانستان کے وہ جنگجو گروپ ہیں جو دہشت گردی کو سٹرٹیجک ہتھیار کے طور پر پاکستانی ریاست کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔سرکاری حیثیت کے حاملی اعلیٰ حکام نے اس واقعہ کے فوری بعد ردعمل سے یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے کہ پاکستان دشمن قوتیں ہمارے ملک کو کس طرح کمزور کرنا چاہتی ہیں اور دہشتگردی کا ناسور کتنی تیزی سے ہمارے ہاں سرایت کر رہا ہے۔ بیرونی مداخلت کے ساتھ ساتھ اندرونی معاملات بھی اچھے قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ سیاسی اختلافات ذاتی انتقام کا روپ دھارے جا رہے ہیں۔ اس طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ جب بھی پاکستان میں بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کا تذکرہ شروع ہوتا ہے تو اس قسم کی ملک دشمن کارروائیاں شروع ہو جاتی ہیں بالخصوص بھارت کے ساتھ لگنے والی پاکستانی سرحدوں کے گرد و نواح کو ہدف بنا لیا جاتا ہے ۔ایسا کیوں ہے اور کیا کچھ عناصر پاک بھارت تجارت کو دشمن کے ساتھ تجارت تصور کرتے ہیں یا اس خیال کے خلاف ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں تجارت شروع کرنے سے پہلے رائے عامہ ہموار کرنا ہو گی اور سفارتی سطح پر بھی کچھ معاملات طے کرنا پڑیں گے بصورت دیگر اس قسم کے معاملات سر اٹھاتے رہیں گے ۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض قوتیں ملک کا مجموعی امن و امان تباہ کرنے کے در پے ہیں۔ مختلف شہروں قصبات میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ،کراچی میں امجد صابری کی شہادت خیبرپختونخوا میں آئے روز ہونے والی دہشتگردی ،کوئٹہ میں ضلع کچہری اور پولیس ٹریننگ سنٹر کے حملے،لاہور میں اوپر تلے 3کارروائیاں اور سندھ میں حضرت لعل شہباز قلندر یعنی سیہون شریف سمیت دیگر واقعات کو بعض افراد ایک ہی سلسلے کی کڑی قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض تجزیہ کار امن و امان کے ان واقعات کو سیاسی عینک لگا کر بھی دیکھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کے دھرنے، ریلیاں اور احتجاج کو بھی اسی پیرائے میں دیکھا جائے تو بات آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے ۔ یہ تو جانچنے اور پرکھنے کا اپنا اپنا انداز ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے والی ہر کارروائی کو آشکار کیا جائے اور ذمہ داران کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے ۔سانحہ لاہور کی جس قدر اور جن الفاظ میں بھی مذمت کی جائے کم ہے یونیفارم فورس سمیت شہریوں کا جانی نقصان ناقابل تلافی ہے ۔امید کی جانی چاہئے کہ ذمہ داران جلد کیفر کردار تک پہنچیں گے اورقوم کو اس حوالے سے اعتماد میں بھی لیا جائے گا۔زیادہ مناسب ہو گا کہ صوبائی دارالحکومت کے حال ہی میں ہونے والے تینوں واقعات کو یکجا کر کے ان کی باریک بینی سے تفتیش کی جائے اور اس قسم کا کمزور موقف کہ دھماکہ دہشتگردانہ کارروائی کی بجائے سلنڈر بلاسٹ ہے لینے کی بجائے حقائق کا سہارا لیا جائے ۔ایسے معاملات میں احتیاط برتنے کی ضرورت بھی ہے کیونکہ خلاف حقائق لائن لینے سے دہشتگردوں کے حوصلے بڑھتے ہیں۔