غریب اور غربت ہر دور کا مسئلہ
تحریر: ذوالفقار علی
غریبی کاتعلق اور معاشی اصلاحات بیسوی صدی کا ایک ایسا تنازعہ معاملہ ہے جو اکیسویں صدی کو ورثے میں ملا ہے.معاشی اصلاحات کے سور ماؤں کا کہنا ہے کہ غریبی کا خاتمہ ہی اصل اور حقیقی مقصد ہے۔لیکن پاکستان بھر کے غریبوں کی موجود حالت بتاتی ہے کہ یہ بیسوی صدی کا ہی نہیں اکیسویں صدی کا بھی سب سے بڑا چیلنج اور جھوٹ ہے جو آج بھی اسی بے شرمی کے ساتھ بولا جا رہا ہے۔
غربت بھوک اور بھوک موت اورجرم کی علامت ہے۔یونیسف کے مطابق دنیا بھر میں 22000 بچے غربت کی وجہ سے مرجاتے ہیں ۔4.3 بلین لوگ خط غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے ہیں اور انہیں ایک وقت کی روٹی بمشکل نصیب ہوتی ہے۔گویا دنیا کی آدھی آبادی کا مسئلہ اور روگ بدترین غربت ہے۔
میرے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈھونگ رچایا اسی لئے گیا ہے کہ غریبوں کو بہکایا جا سکے ، زیادہ آزادی اور زیادہ سہولت کے ساتھ بے خوف وخطر ہوکر غریبی اور غریبوں کا مزید استحصال کیا جا سکے ۔ یہ معاملہ صرف بیسویں یا اکیسویں صدی کا نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ایسے ہی چلا آ رہا ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ غریب ،غریب تر ہو چکا ہے ۔ ہم سادہ لفظوں میں جہنیں متوسط طبقہ ظاہر کرتے ہیں ان کی بھی باری آ چکی ہے کہ وہ غربت کی چکی میں پستے چلے جائیں اور سفید پوشی کا جو بھرم یہ متوسط طبقے نے اپنے آپ پر سجا رکھا ہے اس کا پردہ بھی فاش ہو جائے گا۔پارلیمانی جمہوری نظام کو چلاتے رہیئے اور غریبوں کو غربت کے دلدل میں دھکیلتے رہیئے، یہی اس ملک کے غریبوں کا احوال ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ
"صابر اور مظلوم غریب عوام کے غصے سے ڈریئے کہ کہیں ان کے صبر کا پیمانہ لبریزنہ ہو جائے۔ "
آج ملک کے طول وعرض میں جو ماحول ہے اور جس طرح جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہمارا ملک راستہ بھٹک گیا ہے۔ہم اپنے کلچر ،پیار ومحبت ،دوستی س کچھ بھول گئے ۔ہمارے ملک میں سخت سے سخت قانون کا وجود تو ہے مگر پھر بھی جرائم روزانہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ہمارا ملک صوفیوں کا ملک ہے ، بزرگان دین کا ملک ہے اور یہاں تشدد،بدعنوانی ،نفرت اور بدکاری جیسی گھناؤنی حرکات ہو رہے ہیں۔افسوس کہ ہم امت محمدی کہلانے والے اور ایک اللہ کوماننے والے کس راستے کی طرف محو پرواز ہو رہے ہیں۔یہ وقت توبہ کرنے کا ہے اور تمام برے اعمال وحرکات وسکنات چھوڑ کر راہ راست پر آنے کا ہے مگر کوئی بھی گریبانوں میں جھانکنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ہر کوئی دوسرے کو قصور وار ٹھہراتا نظر آتا ہے۔یہ صرف لفظوں کا ذخیرہ نہیں کر ہا ہوں بلکہ آپ سب یہ تمام معاملے کو روزانہ اخباروں اور میڈیا پر دیکھتے اور سنتے ہیں۔اب سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عوام کا حق ہے کہ ان لفظوں میں کتنا سچ ہے اور کتنا پھر کتنا سچ ہے؟جھوٹ کا لفظ اس لئے تحریر نہ کر سکا کہ تمام حکاتیں سچ ہی تحریر ہو گئی ہیں گو کہ سچ بڑا کڑ وا ہوتا ہے مگر کیا کیا جائے کہ جب قلم روانی سے لکھتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی سچ ہی تحریر ہوتا ہے ۔اسی لئے تو کہتے کہ قلم کی طاقت سچائی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ جیسا کہ یہ لکھ دیا جائے کہ غریبوں کے دن پھر جائیں گے۔اللہ معاف کرے ،ہم تو ایسا جھوٹا دلاسہ دینے سے رہے،قلم تاب ہی رکھتا ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔