عاشق سنگھ نامی جن اور مسلمان خاتون

عاشق سنگھ نامی جن اور مسلمان خاتون
عاشق سنگھ نامی جن اور مسلمان خاتون

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: پیر ابو نعمان سیفی

مخلوق جنات کی شر پسندیوں سے انسانوں کو محفوظ بنانا بھی جہاد ہے۔ اللہ کریم نے اپنے خاص بندوں کو یہ علم عطا فرما رکھا ہے کہ وہ انسانوں کو اذیت پہنچانے اور ان کے معاملات میں دخل اندازی کرکے ان کی گھریلو اور سماجی زندگی تباہ کرنے والے ابلیسی جنات کی پکڑ کیا کریں۔ مگر اس علم کی بنا پر بہت سے جھوٹے دعویدار بھی ہوتے ہیں اور اللہ والوں کی بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں۔ میرے مرید محمد الیاس قادری نے ایسے بہت سے عاملوں کے بارے میں سن رکھا تھا جو جنات وغیرہ جیسی شیطانی مخلوق کو پکڑنے اور آسیب زدہ انسانوں کی جان ہلکی کرانے کا دعویٰ کرتے تھے مگر وہ اپنے علمی مشاہدے کی وجہ سے یقین نہیں کرتے تھے۔ محمد الیاس قادری ویسے بھی لبرل حلقے میں شمار ہوتے تھے جو منطق اور حقیقت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے حلقہ دوستان کا شمار کیمونسٹوں میں ہوتا تھا۔ چند واقعات ایسے رونما ہوئے کہ انہیں اپنے نظریات تبدیل کرنے پڑ گئے۔

ہوا یوں کہ ایک دن میں انکے گھرگیا تو موضوع بحث ایسا چھڑگیا جس میں محمد الیاس قادری بڑھ چڑھ کر تنقید کررہے تھے ۔ وہ جنات کے وجود کو نہ مانتے نہ ہی کرامات کے قائل تھے۔ اسی اثناء میں انہیں خبر ملی کہ ہمسایہ میں ایک عورت بہت بیمار ہے اور گھر والے اس کی تیمارداری کرنے جا رہے ہیں۔ اس عورت کی بیماری لا علاج تصور کی جاتی تھی اور ڈاکٹروں ، حکیموں نے جواب دے دیا تھا کہ اس کو کوئی مرض نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ بستر سے لگی ہوئی تھی اور زندگی بڑی تیزی سے ریت کی طرح مٹھی سے پھسل رہی تھی۔
میں نے الیاس قادری سے کہا کہ انہیں بھی خاتون کی تیمارداری کرنی چاہئے کہ اس طرح حسن سلوک بڑھتا اور ثواب ملتا ہے۔ محمد الیاس قادری نے ترت جواب دیا ’’آپ کیوں نہیں جاتے‘‘ خیر میں انکے ساتھ پیر صاحب کی خواہش پر ہمسایہ کے گھر لے گیا۔ میں نے جب خاتون پر توجہ فرمائی تو القا ہو اکہ اسے تو سایہ ہے۔ جسمانی نہیں روحانی بیماری ہے۔ یہ سن کر گھر والے حیران ہوئے تو کہا’’پیر صاحب اگر اسے سایہ ہے تو اس کا علاج بھی آپ ہی کریں ۔‘‘
میں نے خاتون کے بستر کا حصار کیا۔ اس وقت وہ بے ہوش تھی اور اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ میں نے پڑھائی شرو ع کی تو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ مریل اور بیمار سی عورت یکدم اٹھی اور تیزی سے مجھ پر جھپٹی اور ان کی آنکھیں نوچنے کی کوشش کی۔ سب لوگ اچانک گھبرا گئے۔ میں نے کہا ’’ہاں بھئی۔۔۔کون ہے تو۔۔۔‘‘
’’میں عاشق سنگھ ہوں۔اس کا عاشق ہوں۔ تم چلے جاؤ ورنہ میں اس کو بھی مار دوں گا اور تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ عورت کے لہجے میں ایک مرد انتہائی غصہ سے بول رہا تھا۔ تمام لوگ دم سادھے بیٹھے تھے۔
’’تو چاہتا کیا ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’میں اس کو مارنا چاہتا ہوں۔ پچھلے 35سال سے اس پر قابض ہوں۔ اس کی مورت اور موت سے ہی مجھے شانتی ملے گی۔‘‘ عاشق سنگھ بولا۔
’’اگر تو جان لے کر ہی چھوڑنا چاہتا ہے تو میری لے لو۔‘‘ میں نے کہا تو وہ پھر مجھ پر جھپٹا۔
میں نے اس سے پوچھا’’ہم کیسے یقین کریں تو واقعی سکھ ہے۔ اگر سکھ ہے تو تجھے اپنے گرو کا واسطہ ہے چلا جا کیونکہ تیرے گرو ہمارے بزرگوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔‘‘
عاشق سنگھ نے اس موقع پر اپنا کلمہ بھی پڑھ کر سنایا جو عجیب سا تھا۔ خیر وہ تگ و دو کے بعد مان گیا اور اس عورت کی جان چھوڑنے کے بعد بھارت چلے جانے پر رضا مند ہوگیا۔ اس واقعہ نے الیاس قادری کی آنکھیں کھول دیں۔ اگروہ اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ نہ دیکھتا تو یقیناً اس حقیقت کو وہم اور جہالت گردانتا۔اس کے ساتھ ہی اس نے مجھ کو آزمانے کی کوشش کی ۔ انسان ایک دم اپنے نظریات سے تائب نہیں ہوتا۔ ہوا یوں کہ جب بھی میں قصور کے پاس اپنے گاؤں جاتا تو الیاس قادری بھی میرے ساتھ ہولیتا۔خاص طور پر جہاں جنات کا بسیرا ہوتا یا کسی کا علاج کرنا ہوتا تھا۔وہ میرا بغور جائزہ لیتا اور حجتیں کرتا۔بال کی کھال اتارتا۔ قریب ہی ایک گاؤں ہے ’’ویرکے‘‘۔ وہاں ایک گھر میں آگ لگ جایا کرتی تھی۔ جس کی وجہ سے گھر کا سامان بھی جل جاتا اور مکین بھی خوفزدہ رہتے تھے۔ گاؤں والے بھی اس گھر والوں کے پاس جانے سے کتراتے تھے۔ ان کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی کیونکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ گھر میں کس وقت آگ لگ جائے۔ لوگ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا پاتے تھے۔ مشہور ہو چکا تھا کہ یہاں جنات کا پورا ’’کنواں‘‘ بیٹھا تھا۔ ’’کنواں‘‘ عملیات میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنات جیسی مخلوق آباد ہوتی ہے۔ ’’ویرکے‘‘ گاؤں کے اس گھر میں کئی کنویں تھے اور بہت زیادہ جنات آباد تھے۔انہیں وہاں سے نکالنے کی ہمت کوئی بھی نہیں کرتا تھا۔سب کہتے تھے کہ کوئی تگڑا پیر یا عامل ہی ان کو وہاں سے نکال کر انسانوں کو انکے شر سے بچا سکتا ہے۔یہ بہت بڑا امتحان تھا اور الیاس قادری نے مجھیاس امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔
ایک وقت میں ایک جن کا اُتارا کرنا آسان نہیں ہوتا ۔عامل کو جان سے گزر کر اس انجانی اور شریر مخلوق سے لڑنا پڑتا ہے ۔اگر اس پر وہ قابو پالے تو پھر شرائط بھی منوا لیتا ہے۔’’ویرکے‘‘ میں تو پورا کنواں بیٹھا ہوا تھا اور انہیں آگ لگانے کی قوت و تسخیر بھی حاصل تھی۔یہ سارے ہندواور سکھ جنات تھے۔
میں وہاں گیا اوربڑے اطمینان سے پورے کنویں کو قابوکیا اور انکے سردار کو بلا کر اسکے سامنے یہ شرط رکھ دی کہ وہ مسلمان انسانوں کو تنگ کرکے فساد پھیلا رہے ہیں جس سے انسانی بستیوں میں ہلاکتوں اور خوف کا اندیشہ ہے اس لئے وہ شرافت سے چلے جائیں تو بہتر ہے۔پہلے تو انہوں نے آگ سے مجھے ڈرانا چاہا لیکن اللہ کا کلام شیطان کے پیروکاروں کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ان جنات کو بھی گاؤں چھوڑ کر انڈیا جانے پر مجبورہونا پڑا۔
(پیر ابو نعمان جامعہ جیلانیہ رضویہ حسنین آباد آباد لاہور کینٹ کے منتظم اور باکمال صوفی بزرگ ہیں۔ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ (snch1968@gmail.com

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔